|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2019

اسلام آباد :  ایوان بالا میں ضمنی مالیاتی بل پر بحث کے دوران اراکین نے سابق قبائلی اضلاع ، بلوچستان اور فاٹا میں تعلیم ، صحت اور روزگار اور مواصلات کے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر فنڈز فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اپوزیشن اراکین نے ضمنی بل کو امیر طبقے کو نوازنے اور حکومت کی سیاسی چال قرار دے دیا۔ 

سوموار کے روز سینیٹ اجلاس کے دوران بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر اورنگزیب خان نے کہا کہ گزشتہ4سالوں سے ایک بھی عوام دوست بجٹ پیش نہیں کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ ملکی قرضوں میں صرف30فیصد استعمال ہوتا ہے جبکہ70فیصد کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں استعمال ہونے والے فنڈز میں کرپشن بہت زیادہ ہے اور کسی قسم کی چیکنگ نہیں ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ ملک کے مظلوم عوام اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ اس کیلئے مراعات کا اعلان ہو گا مگر آج تک کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ مختلف ممالک سے لیے جانے والے قرضے کس طرح کرپشن میں چلے جاتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اگر ہم نے ان کو استعمال کیا تو دیگر ممالک کو قرضے دینے کے اہل ہو جائیں گے انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 

سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ حکومت کی پیش کیے جانے والا منی بجٹ بہتر خصوصیات کا حامل ہے تاہم اس حوالے سے کئے جانے والے اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ سینیٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ منی بجٹ کو تاجر تنظیموں نے خراج تحسین پیش کیا ہے اور کاروباری طبقے میں اطمینان آیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سابقہ اموار میں ملکی اداروں کو تباہی اور خسارے سے دوچار کیا گیا حکمرانوں کے اپنے ادارے منافع بخش جبکہ حکومتی ادارے شدید خسارے کا شکار رہے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کو خسارے سے نکالنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور پاکستان سرمایہ کاری کے حوالے بہتر سمت کی جانب گامزن ہو چکا ہے۔

سعودی عرب اور یو اے ای سمیت دیگر ممالک نے پاکستان کو خسارے سے نکلنے میں مدد فراہم کی اس طرح اقتصادی راہداری کے منصوبوں سے چین نے پاکستان کی مدد کی ہے انہوں نے کہا کہ ملک میں صنعت کا پیہ چلے تو ملک معاشی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی رکن سینیٹر گل بشرہ نے کہا کہ منی بجٹ سے غریب طبقے پر مزید بوجھ ڈالا ہے انہوں نے کہا کہ ضمنی بجٹ میں سرمایہ داروں کو فائدہ پہنچانے کی کوششیں کی گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں کمی سے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو ہوا ہے۔ سینیٹر نذہت صادق نے کہا کہ اس وقت ملک میں ترقیاتی سرگرمیاں ماند ہیں زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے ہیں5مہینوں سے ڈالر کی شرح میں اضافے سے ملکی قرضے بڑھ گئے ہیں ملکی سٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان ہے اشیا کے روزمرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے صنعتی شعبے کو گیس کی سپلائی روک دی گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ میں 425ارب روپے کی کٹوتی کی گئی ہے جس کی وجہ سے 400سے زائد ترقیاتی منصوبے رک گئے ہیں۔ سینیٹر محمد اکرم نے کہا کہ موجودہ حکومت نے سابقہ دور میں بلوچستان کیلئے منظور شدہ سکیموں میں بھی کٹوتی کر دی ہے اس طرح اقتصادی راہداری میں بھی بلوچستان کا حصہ صرف4فیصد ہے ۔

انہوں نے کہا کہ منی بجٹ سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں ملا ہے یہ صرف سیاسی تقریر تھی جس کا مقصد ماضی کی حکومت کی پالیسیوں کو غلط ثابت کرنا تھا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کو آخر کب تک صرف وعدوں سے بلایا جائے گا ۔

بلوچستان کے عوام کو تعلیم، صحت اور روزگار سمیت مواصلات کے منصوبے چاہئے۔ بجٹ پر تحریک انصاف کے رکن اسمبلی محمد ایوب آفریدی نے کہا کہ منی بجٹ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکیج ہے اور اس سے ملکی صنعت کو بے حد فائدہ پہنچا ہے اور برآمدات میں اضافہ ہو گا غیر ملکی سرمایہ کاری بڑے گی انہوں نے مزید کہا کہ سابقہ فاٹا کیلئے خصوصی پیکیج کا فوری اعلان کیا جائے۔