|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2019

مستونگ:  سول سوسائٹی مستونگ کے سربراہان سردار علی احمد پرکانی سردار اللہ نور پرکانی حاجی محمد یار علیزئی حاجی قادر بخش شاہوانی محمد آصف پرکانی نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود تاحال سانحہ درینگڑھ کے بیشتر شہدا اور زخمیوں کو حکومت کی جانب سیمعاوضوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ہیں ۔

حکومت کی جانب سے شہداء کے لیے دس لاکھ اور شدید زخمیوں کے لیے پانچ لاکھ جبکہ دیگر زخمیوں کے لیے دو لاکھ کا اعلان کیا گیا انہوں نے کہا کہ اب تک 150 سے زائد زخمیوں میں سے صرف 75 زخمیوں اور 172 شہدا میں سے صرف 30 شہدا کے لواحقین کو معاوضوں کی ادائیگی ممکن ہوئی باقی ماندہ متاثرین عدالتوں اور ڈی سی آفس کا چکر کاٹ کر مایوسی کا شکار ہیں ۔

سانحہ درینگڑھ کے لواحقین کے لیے بحریہ ٹاون کے سربراہ ملک ریاض نے دس کروڑ اور سابق نگران وزیراعلٰی پنجاب نے بھی ایک کروڑ معاوضہ فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا مگر وہ بھی تاحال ان شہدا کے لواحقین اور زخمیوں تک نہیں پہنچ سکیں ۔

انہوں نے کہا کہ 13 جولائی کو پیش آنے والے سانحہ مستونگ کی شہدا کی تعداد سرکاری سروے کے بعد 172 تک پہنچ گئیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 150 سے تجاوز کر گئیں اور یہ سانحہ ملکی سطح کا سب سے بڑا خودکش حملہ تھا جس میں اتنی بڑی تعداد میں اموات ہوئے اور بعض ایسے بھی زخمی بھی شامل ہیں جن کو ان کے ورثاء نے براہ راست جائے حادثہ سے اٹھا کر لے گئے جو سرکاری سطح پر ہونے والے رپورٹ میں شامل نہیں ہوئے ۔

انہوں نے کہا کہ پرکانی قبیلہ کے نوے فیصد لوگ خانہ بدوش اور مالداری پر ان کا انحصار ہے جہاں ان کو پانی اور مال مویشیوں کے لیئے چارہ میسر ہو وہاں پڑاو ڈال لیتے ہیں یا پھر وہ پہاڑوں کے دامن میں خیمہ زن ہوتے ہیں اور ان کا مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ ایک ہی علاقے میں سال بھر رہتے ہیں وہ موسم گرما کے چند ماہ گزار کر پھر سردی کی آمد سے پہلے گرم علاقوں کا رخ کر کے ہجرت کرتے ہیں ۔

اب ان کے سروے یا پھر ان کے شہدا کے لیئے معاوضہ کی ادائیگی میں بہت سارے عوامل آڑے آرہے ہیں کیونکہ یہ پسماندہ قبیلہ نہ صرف میڈیا عدالت و انتظامیہ سرکاری معاملات سے کوسوں دور اور ناواقف ہے بلکہ وہ زندگی کے تمام تر سہولیات اور آسائشوں سے بھی نابلد ہے ۔

انہوں نے صوبائی حکومت اور ڈپٹی کمشنر مستونگ سے مطالبہ کیا کہ جو مریض اب تک زیر علاج ہیں ان کے علاج کو جاری رکھا جائے کیونکہ ان میں ایسے مریض شامل ہیں جو مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوئے ہیں اور ان کو ہسپتالوں سے فارغ کیا گیا ہے سرکاری سطح پر ایک اور سروے کیا جائے جو زخمی سابقہ سروے سے رہ گئے تھے ان کو شامل کر کے ان حقداروں کو بھی معاوضعہ دیا جائے۔