|

وقتِ اشاعت :   January 30 – 2019

بلوچستان کے متعلق جب بھی مرکز میں گونج اٹھی ہے تو حسب روایت وہی روایتی طرز اپنا یا گیا ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر ان کو حق دیا جائے تو وہاں کے لوگوں میں موجود احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا۔یہ صرف ہمدردانہ بیانات تک ہی محدود رہا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے چلتاآرہا ہے۔ 

اگر واقعی مرکزی حکومتیں سنجیدہ ہوتیں تو بلوچستان کے اہم معاملات پر یہاں کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیتیں اور انہیں فیصلوں میں شریک کرتے مگر افسوس کبھی بھی ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بلوچستان کے اہم منصوبوں سے متعلق مرکز میں براجمان سیاسی قیادت معاہدے کرتی اور مقامی لیڈر شپ کی رائے کو سنی اَ ن سنی کرتی اور یہاں کی محرومیوں اور پسماندگیوں کا سارا ملبہ مقامی قیادت پر ڈالتی آئی ہے ۔

بلوچستان کی مقامی قیادت ہمیشہ اپنے لوگوں کے ساتھ مخلص رہی ہے اور بہترقانون سازی سمیت ترقی کے لیے ماسٹر پلان بھی مرتب کرکے پیش کرتی آئی ہے۔ آج بھی بلوچستان کی سیاسی قیادت حکومت اور اپوزیشن دونوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ بلوچستان کو اس کی محرومیوں کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔ 

لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کی لیڈرشپ کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتاصرف فیصلے صادرکیے جاتے ہیں۔ گزشتہ روزبلوچستان اسمبلی اجلاس کے دوران بلوچستان کے معدنی و قدرتی وسائل سے متعلق واضح اور جامع حکمت عملی بنانے سے متعلق بحث کا آغاز کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ ہم ترقی کی بجائے روز بروز پستی کی جانب جارہے ہیں آخر ہم کب تک اس صورتحال سے دوچار رہیں گے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی نظم کو درست کرکے چلایا جائے جب سب مل کر اپنا کردار اد اکریں گے تب صورتحال بہتر ہوجائیگی ،انہوں نے گزشتہ ایک سال کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں سے نکالی جانے والی معدنیات سے متعلق اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ جن علاقوں سے سونا چاندی ، تانبا ، کرومائیٹ ، بیرائٹ ، ماربل ، کوئلہ سمیت دیگر معدنیات نکالی جارہی ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ علاقے انتہائی ترقی یافتہ ہوتے اور وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بہت بہتر ہوتا مگر صورتحال یہ ہے کہ جہاں سے یہ معدنیات نکل رہی ہیں وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی افسوسناک ہے ۔ 

ضرورت اس بات کی ہے کہ جن جن علاقوں سے قدرتی معدنیات نکالی جارہی ہیں ان سے ہونے والی آمدنی کا کچھ حصہ ان علاقوں کی ترقی کے لئے مختص کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان وسائل کو بہتر انداز میں صوبے کی ترقی کے لئے استعمال کیا جائے ،ان سے حاصل ہونے والی آمدنی سے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ آج تک سوئی گیس کا ہیڈ آفس صوبے میں نہیں بنا، چند فٹ پائپ کے لئے بھی ہیڈ آفس کی جانب دیکھنا پڑتا ہے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ معاشی اور معیشت کے حوالے سے دو بلوچستان ہیں ایک بلوچستان میں لوگ بھوک افلاس ، جہالت پسماندگی کا شکار ہیں اور بنیادی سہولیات سے محروم جبکہ دوسرا بلوچستان وہ ہے جس کا بیرونی ممالک میں ذکر کیا جائے تو لوگوں کی آنکھوں میں ہمارے معدنی وسائل کا سن کر چمک نظر آتی ہے۔ 

بلوچستان میں اربوں ڈالر کے معدنی وسائل ہیں مگر ہم پسماندگی اور غربت کا شکار ہیں جبکہ دنیا کے بہت سے چھوٹے چھوٹے ممالک ایسے بھی ہیں جن کے پاس نہ تو کوئی ساحل او رنہ ہی وسائل ہیں مگر ان کے زرمبادلہ کے ذخائر حیران کن ہیں انہوں نے یہ ترقی صرف اچھی لیڈرشپ اور اس کی درست ویژن کی بدولت کی ہے۔

دنیا میں کوئی بھی قوم بہتر ادارے اور اچھی لیڈرشپ نہ ہونے کی وجہ سے ہی پسماندگی کا شکاررہتی ہے اور یہی بدقسمتی بلوچستان کی ہے۔جس طرح اپوزیشن قیادت نے کھل کر اظہار خیال کیا اسی طرح حکومتی جماعت اور وزیراعلیٰ بلوچستان بھی اس بات کو متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ ناانصافیوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔

ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان سے متعلق کئے گئے اہم فیصلوں پر کبھی بھی مقامی قیادت کی رائے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ یہ بات واضح ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتوں میں موجود قیادت پالیسی میکرز ہونے میں مہارت رکھتی ہے، اگر صوبہ کے معاملات پر ان کو ساتھ لیکر چلاجائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا مگر اس کے روشن امکانات کی امید تب رکھی جاسکتی ہے ۔

جب یہاں کی حکومتی واپوزیشن جماعتوں کو مرکز میں اہمیت دی جائے گی لہٰذا بلوچستان کے معاملات پر مرکز یہاں کی قیادت کو ساتھ لیکر چلے تو صوبے کے بہت سارے معاملات حل ہوسکیں گے۔