گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں بدامنی کی وجہ سے پورا خطہ شدید متاثر ہوکر رہ گیا ہے خاص کر پاکستان نے اس پورے دورانیہ میں مختلف اتارچڑھاؤ دیکھے اور سب سے زیادہ اثرات بھی پاکستان پر پڑے ہیں ۔ بدامنی، سماجی تبدیلی، مہاجرین کی آمد ان تمام عوامل کی وجہ سے آج بھی پاکستان متاثر ہے اور افغان امن عمل کی کامیابی سے سب سے زیادہ خوشی پاکستان کے عوام کوہو گی ،اس لئے پاکستان نے افغان امن عمل کو ہمیشہ سنجیدہ لیا ہے۔
دوسری طرف افغان امن عمل کے سلسلے میں جس طرح سے مذاکرات جاری ہیں اس سے ایسا لگ رہا ہے کہ معاملہ مزید تاخیر کی طرف جائے گا ۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے حالیہ مذاکرات سے متعلق افغان صدر اشرف غنی کو تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امریکی فوج کے انخلا ء کا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔افغان صدارتی محل سے جاری بیان میں زلمے خلیل زاد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ انہوں نے افغان قیادت کو طالبان اور امریکا کے درمیان حالیہ مذاکرات کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ طالبان امریکا مذاکرات میں افغانستان میں سیاسی نظام کی تبدیلی پر بات نہیں کی گئی۔افغان صدارتی محل سے جاری بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا کہ زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق بھی کوئی بات نہیں کی گئی جب کہ طالبان سے جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کیے جس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
افغان صدارتی محل سے جاری بیان کے مطابق زلمے خلیل زاد نے کہا کہ مذاکرات میں طالبان رہنماؤں نے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا ء کا مطالبہ دہرایا تاہم اس موقع پر امریکی فوج کے انخلاء کا کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔افغان میڈیا نے دعویٰ کیا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان باقی رہ جانے والے معاملات پر زلمے خیل زاد طالبان قیادت سے دوبارہ ملاقات کریں گے۔امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد نے امریکی اخبار کو انٹرویو میں بتایا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے مسودے پراتفاق ہوگیا۔
خلیل زاد نے مزید بتایا کہ معاہدے پر عمل درآمد سے پہلے فریم ورک مسودے کے بنیادی اصولوں کو طے کرلیا گیا ہے، طالبان نے افغانستان کو عالمی اور انفرادی دہشتگردوں کی آماجگاہ نہ بننے کاوعدہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کافی اعتماد حاصل ہوا اور اب تفصیلات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔دریں اثناء افغان میڈیا سے گفتگو میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا کہ پہلی باریہ کہہ سکتاہوں کہ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، مکمل کامیابی تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت سارا کام ہونا باقی ہے، یہ موقع ہے جس سے افغانوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغانوں کوسیاسی اختلافات بھلا کراس موقع سے جلد فائدہ اٹھانا چاہیے، طالبان پر افغان حکومت سے براہ راست بات چیت کرنے پر زور دیا ہے، افغان مسائل کا حل اب افغانوں کے ہاتھ میں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم مل کر جنگ بندی کے لیے کام کر رہے ہیں، طالبان سے عبوری حکومت سے متعلق کوئی بات نہیں کی، افغان عوام کی خاطر افغانستان میں جلد سے جلد امن چاہتے ہیں، افغانستان کو غیریقینی کی صورتحال میں نہیں چھوڑ سکتے۔دوسری جانب امریکی سفارتخانے کی جانب سے اب تک افغان صدارتی محل کے بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
زلمے خلیل زاد کی جانب سے امریکا طالبان مذاکرات کے بعد اسے نمایاں کامیابی قرار دیا گیا تھا۔یاد رہے کہ قطر کے شہر دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مسلسل 6 روز تک مذاکرات جاری رہے اور 27 جنوری کو سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق فریقین نے 18 ماہ کے اندر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء پر اتفاق کیا۔امریکا اور طالبان مذاکرات میں جنگ بندی کا شیڈول آئندہ چند روز میں طے کرنے پر بھی اتفاق ہوا اور مذاکرات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ طالبان جنگ بندی کے بعد افغان حکومت سے براہ راست بات کریں گے۔
اس تمام صورتحال میں ایک بات تو واضح ہے کہ امریکہ فوجی انخلاء کی جانب فی الحال نہیں جارہا اور وہ افغانستان میں رہنا چاہتا ہے البتہ اس سے قبل امریکی صدر نے فوجی انخلاء کی بات کی تھی مگر موجودہ صورتحال میں ایسا نہیں لگ رہا کہ فوجی انخلاء ممکن ہوسکے گی اور یہی ایک بنیادی وجہ ہے جو مذاکرات میں مزید پیشرفت میں رکاوٹ بنے گی۔
جب تک امریکی اوراتحادی افواج افغانستان سے انخلاء اورمذاکرات میں برائے راست افغان قیادت سمیت فریقین کوشامل نہیں کرینگے یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہی رہے گا ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ خطے میں دیرپا امن قائم کرنے کیلئے افغانستان میں امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیاجائے۔
افغانستان میں امن محض خواب ہی رہے گا؟
وقتِ اشاعت : February 3 – 2019