اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنادیا ہے۔ 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا جس میں انہوں نے قائداعظم کے تین فرمان کا بھی تذکرہ کیا۔ قائد اعظم نے کہا کہ میں مسلمانوں کو خبردار کرتا ہوں کہ اپنے غصے پر قابو رکھیں، رد عمل سے ریاست کو خطرات میں نہیں ڈالنا چاہیے، پاکستان میں قانون کی عملداری ضروری ہے ورنہ لا قانونیت ملک کی بنیادیں ہلا دے گی۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں 12 مئی واقعے، 2014 میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے دھرنے اور فیض آباد دھرنا تینوں واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ 12 مئی 2007 کے ذمہ داران کو کوئی سزا نہیں دی گئی اس عمل سے تحریک لبیک کو شہ ملی۔
فیصلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو نفرت، انتہا پسندی، دہشت گردی پھیلانے والوں کی نگرانی کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا کہ 12 مئی 2007 کے واقعہ نے تشدد کو ہوا دی، اس دن کراچی میں قتل عام کے ذمہ دار اعلی حکومتی شخصیات تھیں، سڑکیں بلاک کرنے والے مظاہرین کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ضروری ہے۔
فیصلے کے مطابق سیاسی جماعت بنانا اوراحتجاج آئینی حق ہے، مگر احتجاج کے حق سے دوسرے کے بنیادی حقوق متاثرنہیں ہونے چاہیے، ہرسیاسی جماعت فنڈنگ کے ذرائع بتانے کی پابند ہے اور الیکشن کمیشن قانون کے خلاف ورزی کرنے والی سیاسی جماعت کے خلاف کارروائی کرے، آئین میں احتجاج کا حق نہیں بلکہ جمہوریت میں احتجاج کا حق ہے۔
فیصلہ میں کہا گیا کہ تمام حساس ادارے اپنی حدود سے تجاوزنہ کریں اور ان کی حدود طے کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے، آئین پاک فوج کو سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے سے روکتا ہے اور فوج کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کی حمایت نہیں کر سکتی، وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق فیض آباد دھرنے کے دوران ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام رہی، اداروں کے درمیان تعاون کا فقدان تھا، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی، وفاقی یا صوبائی حکومت کے خلاف نفرت انگیزی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے جس کی سزا عمر قید ہے، کسی کے خلاف فتوی دینے والوں کا ٹرائل انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ہونا چاہیے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک لبیک نے قانون کی زبان میں غلطی درست کرنے کے باوجود دھرنا جاری رکھا جس سے جڑواں شہر مفلوج ہو گئے اور سپریم کورٹ سمیت تمام سرکاری، غیرسرکاری اداروں کا کام متاثر ہوا، ختم نبوت ﷺ کے معاملے پر تصحیح کے باوجود تحریک لبیک نے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا اور دھرنا قائدین نے دھمکیوں اور گالیوں کے ساتھ نفرت پھیلائی، 16 کروڑ 39 لاکھ 52 ہزار کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو روک دیا گیا، قانون شکنی پر سزا نہیں ہوگی تو قانون شکنوں کا حوصلہ بڑھے گا۔
فیصلہ میں کہا کیا کہ از خود نوٹس اختیار شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ از خود نوٹس اختیارات کے تحت اس قسم کے معاملات میں عوامی مفاد میں دخل دے سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک لبیک بیرون ملک مقیم پاکستانی کے نام پر رجسٹرڈ ہے، ایسی جماعت جس کے فنڈ کا کچھ حصہ بیرون ملک سے آتا ہو وہ غیر ملکی امداد لینے والی پارٹی کے زمرے میں آئے گی، ایسی پارٹی اگر ملکی سالمیت کے خلاف کام کرے تو الیکشن کمیشن ریفرنس دائر کر سکتا ہے، اگر حکومت اس ریفرنس پر نوٹیفکیشن جاری کرکے سپریم کورٹ کو بھجواتی ہے اور سپریم کورٹ نوٹیفکیشن برقرار رکھے تو سیاسی جماعت ختم ہو جاتی ہے۔
فیصلے کے کاپی حکومت پاکستان، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ کو آئی ایس آئی ،آئی بی اور فوج کے سربراہ کو بجھوانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ کی منظوری کے دوران ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی پرتحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ نے فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دیا تھا، دھرنے کے خاتمے کے لئے عدالت نے حکم بھی جاری کیا تھا تاہم طاقت کے استعمال پرکئی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا اورملک بھرمیں دھرنے دیئے گئے۔