|

وقتِ اشاعت :   February 10 – 2019

تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا اور نہ ہی اس کے بغیر بہترین سماج تخلیق کی جاسکتی ہے ، جدید دور میں دنیا کی ترقی صرف علمی بنیادوں پر ہوئی ہے ہم وسائل سے مالامال ضرور ہیں اگر تعلیم کے زیور سے ہماری نسل محروم رہے گی تو وہ اپنے وسائل کا بہترین استعمال اپنے لوگوں اور سرزمین کیلئے نہیں کرسکتا۔ 

کوئٹہ سمیت بلوچستان گزشتہ کئی دہائیوں سے تعلیم جیسے اہم چیلنج کا سامنا کررہی ہے گزشتہ حکومتوں نے جس طرح تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی مگر افسوس اس پر کچھ بھی عملدرآمد نہیں ہوا، آج بھی لاکھوں بچے اسکول سے باہر ہیں جبکہ اسکولوں کی حالت انتہائی خستہ ہے ، ضروری ہے کہ سب سے پہلے پرائمری اسکولوں میں تعلیمی تبدیلی لانے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ان بچوں کو آگے چل کر ہائی ایجوکیشن کیلئے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

ہمارے یہاں یونیورسٹیاں تو بنائی جارہی ہیں مگر انہی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہمارے بچوں کو نہیں بنایاجارہا۔ پرائمری سطح پر جس طرح کا تعلیمی نظام ہے ،بچے کم مدت میں مایوس اور دلبرداشتہ ہوکر اسکول چھوڑ دیتے ہیں اس لئے خاص توجہ اس اہم نوعیت کے مسئلے پر دینی چاہئے کہ کس طرح سے ایک بہترین پالیسی بناتے ہوئے معیار تعلیم کو پرائمری سطح پربلندکیاجائے۔

گزشتہ روز محکمہ تعلیم کے امور کے حوالے سے دی جانے والی بریفنگ کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کاکہناتھا کہ حکومت شعبہ تعلیم کی بہتری اور اسکولوں میں بہتر اور جدید سہولتوں کی فراہمی کے لئے کثیر فنڈز فراہم کررہی ہے، تعلیم کے معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اساتذہ کی غیرحاضری کو برداشت کیا جائے گا، محکمہ تعلیم غیر فعال اسکولوں کی فعالی کے لئے موثر اقدامات اٹھائے اور اساتذہ اور بچوں کی حاضری کی مانیٹرنگ کے نظام کو مزید فعال اور موثر بنایا جائے ۔ 

سیکریٹری پرائمری تعلیم محمد طیب لہڑی کی جانب سے محکمانہ امور، ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم جی آئی ایس پروفائل اور ریئل ٹائم مانیٹرنگ سسٹم کے بارے میں بریفنگ دی گئی، انہوں نے بتایا کہ صوبے میں پرائمری اسکولوں کی تعداد 14250 ہے جن میں سے مختلف وجوہات کی بناء پر لڑکے اور لڑکیوں کے 1623اسکول غیر فعال ہیں، محکمہ کی جانب سے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف موثر کاروائی کی جارہی ہے اور اب تک 16اساتذہ کو ان کی ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا ہے جبکہ غیر حاضر اساتذہ کی تنخواہوں سے کٹوتی بھی کی جارہی ہے۔

بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں جی آئی ایس پروفائل کے ذریعہ اسکول جانے والے ہر بچے کا ڈیٹا موجود ہے اور آر ٹی ایس ایم کے ذریعہ بچوں اور اساتذہ کی حاضری کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے ۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ کسی بھی نئے اسکول کے قیام کے لئے محکمہ تعلیم کی منظوری لازم ہوگی اور اسکولوں کی تعمیر کے لئے ماہر تعمیرات کی خدمات حاصل کی جائیں گی تاکہ تمام اسکولوں کو یکساں ڈیزائن کے مطابق تعمیر کرکے وہاں تمام ضروری سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ 

وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ غیر فعال اسکولوں کی بندش کی وجوہات کا جائزہ لے کر انہیں فوری طور پر دور کیا جائے اور جو اسکول اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہیں ،کابینہ کی جانب سے دی گئی گائیڈ لائنز کے مطابق بھرتی کا عمل فوری طور پر شروع کرکے وہاں اساتذہ تعینات کئے جائیں۔ 

وزیراعلیٰ نے ہر ضلع میں کم از کم ایک ماڈل ہائی اسکول کے قیام اور اس میں ہاسٹل اور آئی ٹی لیب کی دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اساتذہ ہمارے نئی نسل کے معمار ہیں لہٰذا ان کی قابلیت میں اضافہ کے لئے ٹیچر ٹریننگ پروگرام پر خصوصی توجہ دی جائے۔تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کیلئے ٹیچروں کے ساتھ شہر اور قصبوں میں عوامی آگاہی مہم چلانے کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ مؤثر مہم نہ چلانے کی وجہ سے تعلیمی اہداف حاصل نہیں کئے جارہے ۔

آج بھی بلوچستان کے دور درازعلاقوں میں صورتحال انتہائی ابتر ہے، صوبائی حکومت انسانی وسائل پر زیادہ خرچ کرتے ہوئے نوجوان نسل کو ایک بہترین مستقبل دینے کیلئے پالیسیاں مرتب کرے تاکہ آنے والے معاشی انقلاب میں یہاں کے نوجوان اہم کردار ادا کرسکیں۔