بلوچستان میں پانی بحران ایک سنگین مسئلہ ہے ، بارشیں ہونے کے باوجود ہمارے پاس ان کو ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیمز کی قلت ہے جس کے باعث پانی بحران سراٹھاتا رہتا ہے، اگر بارشیں زیادہ ہوں بھی تو منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے پانی ضائع ہوجاتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے صوبہ کے مختلف اضلاع قحط کا شکار ہوگئے ہیں مگر حالیہ بارشوں کے بعد اس صورتحال سے کافی حد تک نکلا جاسکتاہے لیکن اس کیلئے چھوٹے ڈیمز کا ہونا ضروری ہے جو فی الحال ہمارے پاس نہیں ہیں۔
گزشتہ دور میں ڈیموں کی تعمیر کیلئے خطیر رقم خرچ کی گئی مگر تاخیر کی وجہ سے حکومت کے اربوں روپے انہی پروجیکٹ پر ضائع ہوئے صرف اس لئے کہ ناقص منصوبہ بندی اورکرپٹ ذہنیت نے اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے محکمہ پی ایچ ای کو غیرفعال واٹر سپلائی اسکیموں کو فوری طور پر بحال کرنے، کوئٹہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی فعالی، برج عزیز ڈیم کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات کے آغاز، میرانی ڈیم سے گوادر کو پانی کی فراہمی کے لئے پائپ لائن کی تنصیب کے منصوبے کی فزیبیلیٹی رپورٹ تیار کرنے اور واسا کو اپنے محاصل میں اضافہ کی ہدایت کی ۔
وزیراعلیٰ نے محکمے کو اپنے ترقیاتی منصوبوں کے پی سی ون فوری طور پر تیار کرکے محکمہ منصوبہ بندی وترقیات کو بھجوانے کی ہدایت بھی کی ۔ پی ایچ ای حکام نے محکمانہ امور، جاری ترقیاتی منصوبوں کی پیشرفت اور مجوزہ منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دی ۔
جس میں فعال وغیر فعال واٹر اسکیموں،کیسکو کے واجبات، فلٹر اور آر او پلانٹس، گوادر کو پانی کی فراہمی کے منصوبوں، مانگی ڈیم پر کام کی پیشرفت، وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کے لئے مجوزہ منصوبوں اور برج عزیز ڈیم منصوبے کی تفصیلات شامل تھیں جبکہ ایم ڈی واسا کی جانب سے اجلاس کو واسا کی کارکردگی اور مسائل سے متعلق بھی بریفنگ دی گئی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہناتھا کہ عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی حکومت کی ترجیحات کا حصہ ہے جس کے لئے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو اپنی کارکردگی اور استعداد کار میں اضافہ کرنا ہوگا۔
وزیراعلیٰ نے صاف پانی کے غیر ضروری استعمال اور ضیاع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام میں پانی کی بچت اور واسا کے بلوں کی ادائیگی کا شعور اجاگر کیا جائے۔
صوبے کے مختلف علاقوں میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے سروے کرنے، بھاگ میں پانی کے مسئلے کے حل کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اٹھانے، کچھی پلین واٹر پروجیکٹ فیز IIکی فوری تکمیل اور گوادر میں کارواٹ ڈی سیلینیشن پلانٹ کی فعالی کے منصوبے کے معاہدے کو جلد از جلد حتمی شکل دینے کی ہدایت بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی فعالی سے تعمیراتی کاموں، پارکوں اور سروس اسٹیشنوں کے لئے پانی دستیاب ہوسکے گا جس سے ان کاموں کے لئے بروئے کار لائے جانے والے صاف پانی کی بچت ہوگی، وزیراعلیٰ نے واسا کو پانی کے بلوں کے نظام کو بہتر بناکر محاصل میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی، انہوں نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ، سول سیکریٹریٹ، گورنر ہاؤس اور دیگر سرکاری دفاتر میں بھی میٹر نصب کرکے پانی کے بلوں کی وصولی کی ہدایت کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت نے پانی جیسے اہم مسئلے کوسنجیدگی سے لیتے ہوئے ڈیمز کی تعمیر اور ہنگامی بنیادوں پر مختلف علاقوں میں آراو پلانٹ نصب کردیئے ہیں تاکہ عوام کو صاف پانی فراہم ہوسکے۔
بلوچستان میں پانی کے مسئلے کو مستقل حل کرنے کیلئے جب تک ڈیمز کی تعمیر پر توجہ نہیں دی جائے گی اور بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی نہیں اپنائی جائے گی یہ بحران سراٹھاتا جائے گالہٰذا دیرپا اور مستقل پالیسی کے ذریعے ہی اس بحران سے نمٹاجاسکتا ہے۔
دوسری جانب عوام کو یہی شکوہ رہتا ہے کہ بلوں کی ادائیگی کے باوجود انہیں پانی فراہم نہیں کیاجاتا ،اس کیلئے بھی پالیسی بنائی جائے تاکہ عوامی شکایات کاازالہ ممکن ہوسکے۔