|

وقتِ اشاعت :   February 19 – 2019

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی آمداورلک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو حکومت کی اب تک سب سے بڑی کامیابی گردانا جارہا ہے اور سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھی اسے سراہاجارہا ہے۔سعودی سرمایہ کاری کے بعد ملک میں ایک بڑی معاشی تبدیلی آئے گی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے معاشی بحران اور دیگر چیلنجز کا سامنا کررہا ہے مگر اب امید پیدا ہوگئی ہے کہ سعودی سرمایہ کاری کے بعد ہم معاشی اہداف سمیت دیگر بحرانات کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہونگے۔ 

بلوچستان جو اس وقت ملکی معیشت کی ترقی کی کنجی بنا ہوا ہے خاص کر سی پیک اور سعودی عرب کی جانب سے آئل ریفائنری پر سرمایہ کاری کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ بلوچستان کو اس بار معاشی ترقی میں شراکت دار بنایاجائے گا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے مختلف فورمز پر اس بات کو دہرایا ہے کہ ہمارے پاس زمین اور وسائل ہیں مگر ان کا صحیح استعمال نہ ہونے اور جائز حق نہ ملنے کی وجہ سے بلوچستان پیچھے رہ گیا ہے جس کے ذمہ دار سابقہ حکمران ہیں جنہوں نے مؤثر پالیسی نہیں بنائی۔ مگر ہم دونوں ذرائع کو بلوچستان کی آمدن کیلئے استعمال میں لائینگے۔بلوچستان کا شکوہ ہمیشہ رہا ہے کہ بڑے بڑے منصوبوں میں اسے نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔بلوچستان کی زمین اور وسائل سے متعلق معاہدوں میں صوبے کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور تمام فیصلے مرکز سے صادر کیے جاتے ہیں ۔

دوسری طرف یہاں کی صوبائی حکومت کے اراکین ذاتی وگروہی مفادات، فنڈز،مراعات، تبادلے وتقرریوں ، منصوبوں میں ہیرپھیر اور ملازمتوں کی فروخت ملوث پائے گئے ہیں اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے آئے ہیں۔

آج مرکزی فورم پر یہ باتیں کی جارہی ہیں کہ بلوچستان میں 60 ارب روپے سے زائد کی کرپشن ہوئی ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ کرپشن کرنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالاجا تاکہ عوام الناس کو یہ علم ہوسکے کہ گزشتہ کئی ادوار سے بلوچستان کے ہی منتخب نمائندگان یہاں کے عوام کا استحصال کرتے آر ہے ہیں ۔ ماضی میں جتنے بھی منصوبوں پر کام ہوا،ان کا ایک آنہ بلوچستان پر خرچ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان علاقوں کے عوام کو بنیادی سہولیات وفاقی حکومت یا کمپنیوں کی طرف سے فراہم کی گئی ۔

سیندھک جو اربوں روپے منافع دیتی رہی مگر وہاں کے لوگوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی صوبائی حکومت کو اتنی رقم فراہم کی گئی جس سے وہاں بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکیں شاید اس وقت کے حکمران اپنے ذاتی مراعات ومفادات کو زیادہ ترجیح دیتے رہے ہیں۔ سوئی سے نکلنے والی گیس سے آج پورا ملک استفادہ کررہا ہے مگرڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے بیشتر اضلاع آج بھی اس سے محروم ہیں، سوئی کے عوام کے مقدر میں بھی محرومیاں آئیں بلکہ پورے بلوچستان میں صورتحال اسی طرح ہے۔

آج اسمبلی فلور پر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے یہ آواز بلند کی جارہی ہے کہ بلوچستان میں معاشی سرگرمیوں کے متعلق جتنے بھی بڑے پروگرامز منعقد ہوتے ہیں خاص کر سی پیک کے حوالے سے ان کے تمام تر اخراجات بلوچستان حکومت برداشت کرتی ہے، گوادر میں روزانہ تقاریب منعقد کئے جاتے ہیں ۔

اب تک اربوں روپے صرف ان پروگراموں کے انعقاد پر خرچ کئے جاچکے ہیں جس کی ادائیگی صوبائی خزانہ سے کی جاتی رہی ہے مگر منافع بلوچستان کے حصہ میں نہیں آیا اور اس کے امکانات بھی نظر نہیں آتے کہ بلوچستان کو آگے کچھ ملے گا۔کیوں کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کو اپنے وسائل کے بڑے منصوبوں سے محض دو فیصد حصہ ملتا رہا ہے جس کی مثال سیند ھک ہے ۔

نیزریکوڈک جیسے اہم منصوبہ سے جب تک منافع مل رہا تھا تو وفاقی حکومت اور کمپنی ہی اس کا فائدہ اٹھاتی رہی مگر جب جرمانہ لگا تو سارا بوجھ بلوچستان پر ڈال دیا گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کو اس کا جائز حق دیا جائے ،یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ سعودی ولی عہد کی آمد پر وزیراعلیٰ بلوچستان بھی اسلام آباد میں موجود ہیں ۔

یقیناًوہ صوبے کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے اپنا مدعا رکھیں گے تاکہ جو تحفظات موجود ہیں ان سے بھی مقتدر حلقوں کو آگاہ کیا جائے ، اس کے علاوہ آئل ریفائنری سے متعلق جو بھی معاہدہ ہوگا اس سے وزیراعلیٰ بلوچستان مکمل طور پر آگاہ ہونگے جس کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب نمائندوں سمیت عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے خوشخبری سنائینگے جو ایک تاریخی قدم ہوگا۔