بلوچستان میں غربت کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ ہے، جس کی وجہ روزگار کا فقدان ہے ، لے دے کے ایک سرکاری ملازمتیں بچتی ہیں جو کہ حکومت پر زیادہ بوجھ ہے حالانکہ صوبہ میں بہت سے اہم منصوبوں پر کام جاری ہے مگر یہاں کے عوام کو ان منصوبوں سے روزگار فراہم نہیں کیا گیا۔
بجٹ میں خسارہ اس لئے زیادہ ہوتا ہے کہ فنڈز کا بیشتر حصہ روزگار کی فراہمی کے لیے رکھا جاتا ہے ،اگر ماضی میں بہتر منصوبہ بندی کی جاتی اوران منصوبوں سے عوام کو روزگار دیا جاتا تو بجٹ خسارہ بہت کم ہوتا ، وفاق کے زیر انتظام بلوچستان کے میگا منصوبوں سے صوبائی حکومت کو بہت کم حصہ ملتا ہے جس کی وجہ سے عوامی فلاحی منصوبے نہیں بنائے جاسکتے۔ تعلیم کے لحاظ سے بھی بلوچستان بہت پیچھے ہے آج بھی لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ صوبے میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے ،
صحت کے شعبہ کا بھی یہی عالم ہے کہ اکثرعلاقوں میں صحت کی سہولیات عوام کو میسر نہیں۔گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کاکہناتھاکہ سی پیک کی کل لاگت کا صرف تین فیصد حصہ بلوچستان پر خرچ کیا جارہا ہے، اس منصوبے میں نظر انداز کئے جانے کے باعث گزشتہ پانچ سالوں میں بلوچستان کی پسماندگی اور احساس محرومی کو بڑھتے دیکھا گیا ہے۔
نظام کی بہت سی ضروریات ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم گڈگورننس ہے جب تک گورننس کا اسٹریکچر نہیں ہوگا کوئی بھی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہوسکتی، ماضی میں عارضی بنیادوں پر اقدامات کئے جاتے رہے لیکن دیرپا بنیادوں پر مشتمل پالیسیوں کے قیام کی جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی، صوبائی حکومت کی پالیسیوں اور گزشتہ ساڑھے پانچ ماہ میں کئے گئے اقدامات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہم نظام میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔
شفافیت، احتساب اور کارکردگی کی بہتری کے ذریعہ خدمات کی فراہمی کے نظام کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کی جانب خصوصی توجہ دیتے ہوئے اداروں کی کارکردگی میں اضافہ کیا گیا ہے، مختلف شعبوں میں قانون سازی کی ہے، اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرکے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے، صوبے میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے اور ان دونوں شعبوں کو لازمی سروس قرار دینے کا ایکٹ بنایا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ امن وامان کا قیام بھی ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہے، حکومتی اقدامات کے باعث گزشتہ چند سالوں کے مقابلے میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے، طویل عرصہ سے تعطل کے شکار کوئٹہ سیف سٹی منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کردیا گیا ہے اور ایسے منصوبے صوبے کے دیگر شہروں میں بھی شروع کئے جائیں گے۔
سماجی شعبہ میں اندومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا مقصد جان لیوا امراض میں مبتلا لوگوں کو علاج معالجہ کی سہولیات کی فراہمی ہے، قومی شاہراہوں پر 1122ہائی وے ایمرجنسی سینٹرقائم کئے جارہے ہیں، لینڈ لیز ایکٹ کے تحت صوبے کی زمینوں کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے اور اب کوئی بھی غیر ملکی بلوچستان میں زمین کا مالک نہیں بن سکتا۔ خواتین کے وراثتی حق کے تحفظ کا قانون بنایا گیا ہے جبکہ پبلک سروس کمیشن کے ایکٹ میں ترامیم لاتے ہوئے اسے مزید بہتر بنایا گیا ہے۔
کنٹریکٹ پر ڈاکٹروں اور اساتذہ کی بھرتی کے ذریعہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہتری لائی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ بھرتی کے عمل کو بھی ضلعی سطح پر منتقل کردیا گیا ہے جس کا مقصد مقامی افراد کو ان کے علاقوں کی خالی اسامیوں پر بھرتی کا موقع دینا ہے۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو صحت، تعلیم کے شعبوں اور ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ کا اختیار دینے کے ساتھ ساتھ ان کے مالی اختیارات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔صوبائی حکومت نے تعلیم، صحت، روزگار، شاہراہوں کے تحفظ، سیف سٹی پروجیکٹ، انڈومنٹ فنڈز سمیت اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے اقدامات اٹھائے ہیں اس سے یقیناًکسی حد تک بہتری آئے گی ۔
کوئٹہ سیف سٹی پروجیکٹ اب بھی تعطل کا شکار ہے لہذا پہلے دارالخلافہ میں اس پروجیکٹ کو مکمل کیاجائے، بعد میں دیگر بڑے شہروں میں اس پر کام کا آغاز کیاجائے۔تعلیم اور صحت سمیت بنیادی سہولیات سے آج بھی کوئٹہ کے شہری محروم ہیں ، کوئٹہ پیکج کی تکمیل کے بعد شہری مسائل میں بڑی حد تک کمی آئے گی کیونکہ اس وقت آبادی کے تناسب سے شہر میں سہولیات اور انتظامات موجود نہیں ہیں جس کیلئے کوئٹہ پیکج پر جنگی بنیادوں پر کام ہونا چاہئے تاکہ شہریوں کی مشکلات میں کمی آسکے ،یہ تب ہی ممکن ہوگا جب وسائل کا صحیح استعمال ہوگا اور اس کے نتائج بھی برآمد ہونگے، ماضی میں اس کے لیے رقم تو مختص کی گئی تھی مگر عدم توجہی کے باعث اہداف حاصل نہیں کئے جاسکے ، حکومتی توجہ سے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں لہذا صوبائی حکومت اس سمت میں پیشرفت یقینی بنائے۔
بلوچستان: وسائل کا صحیح استعمال ، وقت کی ضرورت
وقتِ اشاعت : February 22 – 2019