|

وقتِ اشاعت :   February 24 – 2019

کراچی میں ایک ریستوران میں مضر صحت کھانا کھانے سے ایک ہی خاندان کے چھ افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ گزشتہ روز کراچی میں ایک نجی ریسٹورنٹ سے مبینہ طور پر مضر صحت کھانا کھانے سے 5 کمسن بہن بھائی جبکہ ایک خاتون جاں بحق ہوگئی جوکہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔

پولیس کے مطابق متاثرہ خاندان نے صدر کے علاقے میں پاسپورٹ آفس کے قریب واقع ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا تھا، جس کے بعد سے بچوں سمیت دیگر افراد کی طبعیت بگڑ گئی تھی، طبیعت خراب ہونے پر پانچوں بچوں اور ان کی پھوپھی کو فوری طور پر شہر قائد کے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، تاہم وہاں بچے مبینہ طور پر مضر صحت کھانے کی وجہ سے جانبر نہیں ہوسکے ۔جاں بحق ہونے والے بچوں کی عمریں ڈیڑھ سے 9 سال کے درمیان بتائی جا رہی ہیں اور متاثرہ خاندان کا تعلق صوبہ بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے خانوزئی سے ہے۔

جاں بحق ہونے والے ہونے والے بچوں میں ڈیڑھ سالہ عبدالعلی، 4 سالہ عذیر، 6 سالہ عالیہ، 7 سالہ توحید اور 9سالہ سلویٰ شامل ہیں۔بچوں کی پھوپھی بھی علاج کے دوران دم توڑگئی ۔ڈی آئی جی ساؤتھ شرجیل کھرل نے بتایا کہ صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا یہ خاندان کراچی کے علاقے پاسپورٹ آفس کے قریب واقع نوبہار ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے لیے آیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے والد نے بتایا کہ دوپہر ڈھائی بجے خضدار میں دوست کے گھر کڑھائی، روٹی اور چھولے کھائے جس کے بعد شام ساڑھے 4 بجے حب کے قریب سے چپس اور پیک جوس لیے۔پولیس افسر نے بتایا کہ فیصل اپنے اہلخانہ کے ہمراہ رات ریسٹورنٹ پہنچے جہاں ان کی بیوی ندا، بہن بینا، عبدالعلی، عذیر، عالیہ، توحید اور سلویٰ ان کے ہمراہ تھے اور وہاں سے ان سب افراد نے صرف بریانی کھائی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کھانا کھاتے ہی اہلخانہ کے تمام چھ افراد کی طبیعت بگڑ گئی اور انہیں فوری طور پر اسٹیڈیم روڈ پر واقع نجی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں پانچوں بچے دم توڑ گئے جبکہ پھوپھی گزشتہ روزدم توڑگئی۔ڈی آئی جی ساؤتھ نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچوں نے کراچی آتے ہوئے جس جس جگہ کا کھانا کھایا، وہاں سے نمونے جمع کیے جا رہے ہیں جس سے یقینی طور پر تحقیقات میں مدد ملے گی۔ 

ریسٹورنٹ کے عملے میں شامل 15 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن سے تفتیش کی جا رہی ہے جبکہ مالک کی تلاش جاری ہے۔سندھ فوڈ اتھارٹی کے آفیشل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ فوڈ اتھارٹی ٹیم ریسٹورنٹ پہنچ چکی ہے اور نمونے اکٹھے کر رہی ہے جنہیں جانچ کے لیے لیبارٹری بھیجا جائے گا۔انہوں دعویٰ کیا کہ ریسٹورنٹ کو سیل کر کے انہوں نے جہاں جہاں سے بریانی کے لوازمات اکٹھا کیے ہیں، ان کی بھی مکمل چھان بین کی جائے گی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کوئٹہ سے کراچی آنے کے بعد یہ خاندان قصر ناز میں ٹھہرا تھا اور دوران سفر انہوں نے خضدار اور حب میں کھانا کھایا تھا۔رپورٹ کے مطابق کراچی پہنچنے پر اس فیملی نے نوبہار ہوٹل سے پارسل بریانی لی اور اسے اپنے کمرے میں کھایا، بریانی کھانے کے بعد ہی خاتون نے الٹیاں شروع کردیں جس پر ان کے شوہر انہیں علاج کے لیے فوراً آغا خان ہسپتال لے کر گئے۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ جب خاندان کے سربراہ ہسپتال سے واپسی پر صبح کمرے میں پہنچے تو ان کے پانچ بچے اور ایک رشتے دار کمرے میں بے ہوش پڑے تھے جنہیں فوراً ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پانچوں بچوں کو مردہ قرار دے دیا گیا۔رپورٹ کے مطابق سندھ فوڈ اتھارٹی نے ’نوبہار ریسٹورنٹ‘ سے کھانے کے نمونے حاصل کیے ہیں جبکہ قصر ناز کے کمرے سے بھی کھانے کے نمونے حاصل کیے گئے ہیں جنہیں ٹیسٹ کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ وہ بچوں کے والد سے خود جا کر ملیں اور اگر وہ واپس کوئٹہ جانا چاہتے ہیں تو ان کے لیے تمام انتظام کیا جائے۔یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ کراچی کے کسی ریسٹورنٹ میں مضر صحت کھانا کھانے سے معصوم بچوں کی جانیں گئی ہیں، گزشتہ سال کلفٹن کے علاقے میں واقع ایری زونا گرل کا ناقص کھانا کھانے سے دو بچے دم توڑ گئے تھے۔تحقیقات میں یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ ایری زونا گرل ریسٹورنٹ میں زائد المیعاد گوشت موجود تھا جسے کھانے کے باعث ڈیڑھ سالہ احمد اور 5 سالہ محمد جاں بحق ہوئے، بعد ازاں متوفین بچوں کے والد نے ریسٹورنٹ کے مالک کو معاف کرکے مقدمہ واپس لے لیا تھا۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بچوں اور خاتون کی موت نے ہر کسی کو صدمہ میں ڈال دیا ہے یقیناًیہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے مگر یہ کھیل کب تک اسی طرح جاری رہے گا ،ریسٹورنٹ اور فوڈ پوائنٹس کے نام پر زہر فروخت کرنے والوں کے خلاف کب مؤثر کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ریسٹورنٹ اور فوڈ پوائنٹس کی ہر جگہ بھرمار ہے ،جگہ جگہ کھانے فروخت کئے جاتے ہیں ایک شاہراہ پر درجن بھر فوڈ پوائنٹ دیکھنے کوملتے ہیں مگر یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان پر نظر رکھاجائے کہ کس طرح کھانے کی اشیاء کی جگہ زہر فروخت کیاجارہا ہے کیونکہ فوڈ پوائنٹس پر باسی کھانا سمیت مضر صحت اور ناقص غذا کا استعمال صرف منافع کمانے کیلئے کیاجاتا ہے، صوبائی حکومتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فوڈ کنٹرول اتھارٹی کو فعال بنائیں تاکہ غذائی اجناس کو چیک کیا جاسکے ۔

عرصہ دراز سے یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ فوڈ اتھارٹیز کو مکمل فعال کرنے کے ساتھ ساتھ غذائی اجناس کو چیک کرنے کیلئے ٹیمیں تشکیل دی جائیں اور جہاں بھی غیر معیاری غذائی اجناس فروخت ہورہا ہے یا صفائی کا خیال نہیں رکھاجارہا انہیں سیل کردیا جائے تاکہ عوام الناس کو معیاری غذائی اجناس فراہم ہوسکے۔ بلوچستان کی حکومت اور عوام بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ متاثرہ خاندان کو مکمل انصاف فراہم کیاجائے اور ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے جو انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔