بلوچستان کے ساتھ تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہمیشہ امتیازی سلوک روا رکھا گیاہے،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مسائل میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتا گیا۔ سوئی گیس اور او جی ڈی سی ایل کے سربراہان نے بلوچستان کے صرف ترقیاتی اسکیموں کا ذکر کیا اور ان کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور دونوں کمپنیوں نے تیل اور گیس کی تلاش کی بات کبھی نہیں کی۔
دونوں کمپنیوں نے یہ تذکرہ تک نہیں کیا کہ بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ ظلم خدا کا بلوچستان کے سوئی گیس نے پورے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کیں مگر صوبے کے دوسرے بڑے شہر خضدار گزشتہ 60سالوں سے سوئی گیس سے محروم ہے۔
ماضی میں دونوں کمپنیوں کے سربراہان نے خضدار، لسبیلہ اور خاران میں تیل اور گیس کی تلاش کے کام کے متعلق بریفنگ دی تھی۔ سوال یہ ہے کہ خضدار اور اس کے ملحقہ علاقوں کو گیس مل رہی ہے، 60سال گزرگئے پورے پاکستان کو گیس مل رہی ہے، نارو وال میں گیس پہنچائی گئی جو پاکستان کا آخری سرحدی گاؤں ہے مگر خضدار، تربت، گوادر، پسنی، سوراب، بیلہ، خاران کے لئے گیس نہیں ہے۔ گزشتہ ادوار میں کسی بھی وزیراعظم کو یہ دلچسپی کبھی بھی نہیں رہی کہ خضدار، تربت، گوادر، خاران کو سوئی گیس فراہم کی جائے اور ان شہروں کو قومی گرڈ سے بجلی پہنچائی جائے، تربت بلکہ پورا مکران قومی گرڈ کا حصہ نہیں ہے۔
وزرائے اعلیٰ کے شور مچانے کے بعد بھی مکران، خاران کو قومی گرڈ سے منسلک کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ جہاں تک سوئی گیس کی بات ہے اس سے پاکستان نے 400ارب ڈالر کی بچت کی ہے۔ اگر سوئی گیس نہ ہوتا تو پاکستان کو تیل درآمد کرنا پڑتا جس پر 400ارب ڈالر کا اضافی بوجھ پڑتا۔
اس کے علاوہ سوئی گیس نے گزشتہ 60سالوں میں کئی کھرب ڈالر کا معاشی اور مالی فائدہ پہنچایا۔بلوچستان میں سوئی گیس کے متعلق حکومت اور اپوزیشن اراکین ہمیشہ بحث کرتے آئے ہیں اور ساتھ ہی متعدد قراردادیں اسی مقدس ایوان سے پاس بھی ہوئیں مگر کمپنی کو کوئی فرق نہیں پڑا، المیہ یہ ہے کہ سوئی گیس کا مرکزی آفس بھی بلوچستان میں نہیں عوام توکجا عوامی نمائندگان تک کمپنی میں رسائی نہیں رکھتے یہ انتہائی ظلم ہے بلوچستان کے مسئلہ کو چند ہمدردانہ لفظوں میں حل نہیں کیاجاسکتا ۔
پی ٹی آئی کی حکومت تبدیلی کا نعرہ لیکر آئی ہے بلوچستان کے منتخب نمائندگان اور عوام یہی توقع رکھ رہے ہیں کہ وفاقی حکومت بدقسمت صوبہ کی تقدیر بدلے گی جو ماضی میں ہوتا رہا ہے اب وہ سلسلہ رک جائے گا،اور سوئی گیس کمپنی کے روش کو بھی تبدیل کرنا ہوگا جو عرصہ دراز سے بلوچستان کے ساتھ ناروا سلوک رکھتاآیا ہے۔
بلوچستان صرف اپنا جائز حق مانگتا ہے اور جو کمپنیاں بلوچستان میں کام کررہی ہیں ان کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ صرف منافع نہ کمائیں بلکہ یہاں کے عوام کو سہولیات بھی فراہم کریں ۔ یہ شکایات ہمیشہ ایوانوں سے لیکر سڑکوں تک زور وشور سے سنائی دیتی رہی ہیں کہ بلوچستان کے وسائل سے جس طرح اربوں روپے کمایاجارہا ہے ،اس کو یہاں کے لوگوں پر خرچ کیاجائے ۔
سوئی گیس بلوچستان سے نکلتی ہے مگر گیس یہاں کے عوام کو میسر نہیں ،آج بھی اس علاقے کے لوگ لکڑی کا استعمال کرتے ہیں جہاں سے یہ گیس نکلتی ہے جبکہ اخلاقی اور قانونی طور پر سب سے پہلا حق اسی علاقہ اور صوبہ کا بنتا ہے مگر شومئی قسمت کہ ہر باربلوچستان کے عوام کو محض طفل تسلیاں دی جاتی ہیں۔ سوئی گیس نے اب اپنی عوامی آگاہی مہم بھی بند کردی ہے۔
پہلے لوگوں اور خصوصاً صارفین کو آگاہ کیا جاتا تھا کہ سونے سے پہلے گیس کے چولہے بند کردیں ، احتیاطی تدابیر اختیار کریں تاکہ حادثات واقع نہ ہوں۔ اس مہم کی بندش کے بعد کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح میں حالیہ دنوں میں متعدد حادثات ہوئے ہیں جن میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں ہیں۔
سوئی گیس کمپنی پیسہ بٹورنے میں مصروف
وقتِ اشاعت : February 26 – 2019