گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال کشیدہ ہے، پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت نے ایک جنگی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ، بھارت کی جانب سے انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا گیا جبکہ پاکستان نے اس تمام صورتحال کے دوران کشیدگی کو کم کرنے کیلئے مذاکرات کی پیشکش کی مگر معاملہ اس وقت خراب ہوا جب بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی حدود میں داخل ہوکر حملہ کیا اور جھوٹے پروپیگنڈے شروع کئے۔
پوری صورتحال کے دوران بھارت کوئی بھی ثبوت دینے میں ناکام رہا جبکہ پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھتے ہوئے جواب دینے کے ساتھ ساتھ امن پر زیادہ زور دیا ۔ اس دوران عالمی سطح پر شدید تشویش کا اظہار کیاجانے لگا۔ امریکہ، روس، برطانیہ، ترکی سمیت دنیا کے کئی ممالک کی طرف سے دو جوہری طاقتوں، پاکستان اور بھارت میں جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے پس پردہ کی جانے والی سفارتی کوششوں نے مثبت نتائج پیدا کرنا شروع کر دئیے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کاکہناہے کہ پاکستان اور بھارت کے رہنماؤں سے بات کی ہے اور انہیں کوئی بھی ایسا قدم اٹھانے سے گریز کرنے کو کہا ہے جس سے جنوبی مشرقی ایشیا میں کشیدگی اور جنگ کا خطرہ بڑھ جائے۔
روس کے صدر ولادی میرپوٹن نے بھی بھارت کے وزیراعظم نریندی مودی سے ٹیلیفون پر بات کی۔ دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے بعد روسی صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر پوٹن کو امید ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین بحرانی کیفیت کا جلد خاتمہ ہو گا۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لوروف پہلے ہی دونوں ملکوں کے مابین بات چیت میں مدد دینے کی پیشکش کر چکے ہیں۔
برطانوی وزیر خارجہ جرمی ہنٹ نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فون پر خطے میں جاری کشیدہ صورت حال پر تفصیل سے بات چیت کی۔ جرمی ہنٹ نے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور دونوں ملکوں کو صبر و تحمل سے کام لینے کو کہا۔
عمران خان نے جمعرات کی صبح پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے بدھ کی رات کو نریندر مودی کو فون کرنے کی کوشش کی تھی۔عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو ایسی اطلاعات بھی موصول ہو رہی تھیں کہ بھارت بدھ کی رات پاکستان پر میزائل حملہ کر سکتا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے بھی وزیر اعظم عمران خان سے ٹیلیفون پر بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے دوستوں سے بات کریں گے اور ان سے درخواست کریں گے کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے میں کرادار ادا کریں۔دوسری جانب متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید النہیان نے بھی پاکستان اوربھارت کے وزرائے اعظم سے بات کرکے خطے میں کشیدہ صورتحال کو قابو کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ولی عہد نے وزیر اعظم عمران خان اور نریندر مودی سے خطے میں موجود صورتحال کے بعض پہلوؤں پر بات چیت کی اور دونوں ملکوں کو بات چیت سے معاملات حل کرنے پر زور دیا۔دنیا کے اہم ممالک کی کوششیں جاری ہیں مگر پاکستان نے پہلے ہی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی پائلٹ کو خیرسگالی کے طور پر بھارت بھیجنے کا فیصلہ کیا جسے پوری دنیا میں سراہا گیا۔
پاکستان میں حکومت، اپوزیشن جماعتوں سمیت عوام یک زبان ہیں اور کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے تیار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بارہا امن اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے واضح کیا کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں بلکہ معاملہ ہاتھ سے نکلنے کے بعد اسے کوئی روک نہیں سکتا یقیناًجنگ تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتا اس لئے ضروری ہے کہ خطہ جو کئی دہائیوں سے جنگ کی وجہ سے شدید متاثرہے اب امن کو موقع ملنا چاہئے ۔
بھارت جنگی جنون سے نکل آئے کیونکہ اس جنگی روش کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہونگے جس کا احساس پوری دنیا کررہا ہے اس لئے سفارتی سطح پر مختلف ممالک نے رابطوں کے ذریعے کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔
پاکستان پہلے ہی امن کی پیشکش کرچکا ہے مگر جارحیت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ لہٰذا بھارت غلط فہمی سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرے کیونکہ دنیا کو اپنے منفی پروپیگنڈے کے ذریعے زیادہ دیر دھوکہ میں نہیں رکھا جا سکتا ۔دنیا کے اہم ممالک کا موجودہ صورتحال میں سفارتی سطح پر بات چیت ایک مثبت قدم ہے لہٰذا ضروری ہے کہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیاجائے تاکہ خطے میں امن برقرار رہے۔
پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے عالمی برادری کی کوششیں
وقتِ اشاعت : March 2 – 2019