|

وقتِ اشاعت :   March 7 – 2019

پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے مختلف بحرانات اور چیلنجز کاسامنا کررہا ہے۔ دنیا کی بدلتی پالیسی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے کوئی ایک سمت نہیں اپنائی، پاکستان نے فرنٹ رول کا کر دار ادا کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جو کچھ کیا شاید اتنا کسی اور ملک نے کیا ہو، اس کے لیے پاکستان کو بہت بڑی قیمت چکانی پڑی ، لیکن بدلے میں امریکہ سمیت عالمی برادری کو پاکستان کوجو مقام دینا چاہئے تھا وہ نہیں دیا جبکہ پڑوسی ملک بھارت زیادہ انہیں عزیز رہا ۔

پاکستان نے صرف یہی موقف اپنایا کہ خطے میں امن اور خوشحالی کیلئے وہ اپنا تعاون جاری رکھے گا بلکہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھرپور کارروائی بھی کرے گا لیکن کسی اور کی جنگ اب نہیں لڑے گا۔ 

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کی معیشت میں بہتری آنے لگی تو مختلف سازشوں کے ذریعے اس کو بریک لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، سی پیک، سعودی سرمایہ کاری، ایران کی سی پیک میں شراکت داری کی دلچسپی یہ وہ عوامل ہیں جسے دشمن ملک برداشت نہیں کررہے، کسی بھی بہانے اور موقع کوغنیمت سمجھتے ہوئے پاکستان پر الزام تراشی شروع کردی جاتی ہے جس کی مثال پلوامہ واقعہ ہے ۔

بھارت اب تک کوئی خاص شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا ہے مگر مودی حکومت اور میڈیا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے تناؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں جس کے جواب میں پاکستان نے انتہائی صبر وتحمل سے کام لیا ہے۔ دوسری جانب سے جب جارحیت کی گئی تو پاکستان نے اپنے دفاع میں بھرپور جواب دیا جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمہ وقت تیار ہے مگر پاکستان کی جانب سے یہی زور دیاجارہا ہے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں بلکہ امن اورمذاکرات کے ذریعے ہی کسی نتیجے پر پہنچاجاسکتا ہے۔ 

گزشتہ روزڈی آئی جی آئی ایس پی آر میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ پاکستان نے بھارتی پائلٹ کورہا کرکے امن کا پیغام دیا، بال اب بھارت کے کورٹ میں ہے، اب بھارت پر ہے کہ وہ امن کی طرف جاتا ہے یا خطے کوغیرمستحکم کرتا ہے۔ان کا کہناتھاکہ بھارت نے دوبارہ حالات خراب کیے تو یہ خطے کے امن کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی خطے کا امن وابستہ ہے، مقبوضہ کشمیر میں خواتین سے زیادتی کی جارہی ہے، بھارت کشمیری نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے اندھا کررہا ہے۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ریاست ایف اے ٹی ایف کے تحت اقدامات کررہی ہے۔ 

کالعدم تنظیموں پر پابندی ملکی مفاد میں ہے، نیشنل ایکشن پلان پر2014 سے عمل جاری ہے، کچھ مالی وسائل کے باعث اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جا سکا۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ بھارتی ڈوزیئرکو متعلقہ وزارت دیکھ رہی ہے، وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ پلوامہ واقعے میں کوئی ملوث ہوا تو کارروائی ہو گی۔

ان کا کہنا ہے کہ سسٹم بہترہونے سے پاکستان کو ہی فائدہ ہو گا، یہ وقت اکٹھے ہونے کا ہے اب پاکستان کا بیانیہ چلے گا پاکستان کو وہاں لے کر جائیں گے جہاں اس کا حق بنتا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول پربھارتی جارحیت اب بھی جاری ہے، دونوں ملکوں کے درمیان ہاٹ لائن پر رابطہ نہیں ہو سکا، مسلح افواج کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے چوکس ہیں۔

دوسری جانب وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں پرائیویٹ ڈپلومیسی نے کام دکھایا ہے، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے کردار کا شکریہ ادا کرتا ہوں، امریکہ نے پرائیویٹ ڈپلومیسی کے ذریعے پاک بھارت کشیدگی میں کمی کیلئے کردار ادا کیا ہے، امریکا کے علاوہ چین، روس، ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن سمیت دیگر کئی ممالک کے رہنماؤں نے بھی کردار ادا کیا۔

وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہاکہ پلوامہ واقعہ کے بعد چین نے پاکستان اور بھارت کو پر امن رہنے اور مذاکرات سے معاملات حل کرنے کا کہا تھا۔چین نے مشکل حالات میں پاکستان اور بھارت کو انگیج رکھا، چین صرف ہمسایہ ہی نہیں ایک بہترین دوست بھی ہے، پاک چین کی دوستی سے خطے میں امن کو سہارہ ملا ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہر شعبے میں بہترین کام ہو رہا ہے اور سی پیک سے چین کے ساتھ دوستی اور تعلقات میں مزید مضبوطی آئی ہے۔

حکومت اور عسکری قیادت کا مؤقف دنیا کے سامنے واضح ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے موجودہ کشیدگی کے ماحول میں جتنا بھی بہتر اور مثبت طریقہ اپنانا چاہئے وہ سب کچھ پاکستان کررہا ہے۔ موجودہ کشیدہ صورتحال کے خاتمے کیلئے دنیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ خطے میں دیرپا امن اور خوشحالی آسکے جو سب کے مفاد میں ہے۔