|

وقتِ اشاعت :   March 7 – 2019

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے میں تاخیر کی رپورٹ طلب کرلی۔

سپریم کورٹ میں سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے رجسٹرار خصوصی عدالت سے مقدمے میں تاخیر پر رپورٹ طلب کرلی۔ عدالت نے حکم دیا کہ رجسٹرار خصوصی عدالت 15 دن میں رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائیں اور ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات بیان کریں۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نئی خصوصی عدالت تشکیل پاچکی ہے، تو پھر پرویز مشرف کا ٹرائل کیوں رکا ہوا ہے، حکومت انہیں واپس لانے کے لیے کیا کررہی ہے، پہلے یہ تاثر دیا گیا کہ ای سی ایل سے ان کا نام عدالت نے نکالا ہے، لیکن پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنا حکومت کا کام تھا، انہیں واپس لانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پرویز مشرف 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے نہیں آتے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انکاری ہیں، کیا ملزم کے ہاتھوں عدالت یرغمال ہوسکتی ہے، کیا ملزم جان بوجھ کر نہ آئے تو عدالت بے بس ہوجاتی ہے، کوئی ملزم چھوٹا بڑا نہیں ہوتاسب برابر ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل پرویز مشرف کو واپس لانے کے اب تک کے اقدامات سے آگاہ کریں اور وفاقی حکومت کی جانب سے جواب جمع کروائیں، آئندہ سماعت پر تعین کریں گے کہ پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کی کارروائی کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔

عدالت نے وفاق اور مقدمے میں تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کر کے آئین توڑنے کے جرم میں آئینِ کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے مقدمہ درج ہے۔ عدالت میں پیش نہ ہونے اور مقدمے کا سامنا نہ کرنے پر انہیں اشتہاری اور مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔ پرویز مشرف عرصہ دراز سے بیرون ملک مقیم ہیں۔

یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی فوجی آمر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ ہے تاہم کئی برس گزر جانے کے باوجود اس میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی۔