جس معاشرے میں انصاف اور عدل نہ ہو وہاں انتشار اور انارکی پیدا ہوتی ہے، ہمارے یہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے سرمایہ دار سیاستدانوں نے حکمرانی کی جس کی وجہ سے معاشی ناہمواری پیدا ہوئی اور عام لوگوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ غربت کی شرح میں اضافہ ہوا کیونکہ سرمایہ دار حکمرانوں نے ملکی وسائل لوٹ کر اپنی جائیدادیں بنائیں اور اپنے کاروبار کو وسعت دیا۔
آج بھی ہمارے سیاستدانوں میں بیشتر سرمایہ کار ہی ہیں ایک ایسا لیڈر عام لوگوں میں سے پیدا نہیں ہوا جس کی مثال دی جاسکے ۔سیاستدانوں کے دعوے بہت بڑے ہوتے ہیں مگر ان کا تعلق ایک خاص طبقہ سے ہوتا ہے اور یہی ایک تسلسل چلا آرہا ہے جسے موروثی سیاست کہاجاتا ہے کسی بھی حکمران جماعت کا کوئی عام ورکر وزیراعظم کے عہدے تک نہیں پہنچااور نہ ہی اس طرح کا مائنڈ سیٹ ہے جو تبدیلی لائے۔
ملکی بحرانات، غربت، بیروزگاری، مہنگائی، ناخواندگی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے آرہے ہیں مگر کسی نے عوامی مفادات کے تحت پالیسی نہیں بنائی۔ تیسری دنیا کے بعض ممالک میں موروثی حکمران اور سرمایہ دار قابض ہیں اس لئے وہاں مختلف شعبوں میں کافی ابتری دیکھنے کو ملتی ہے جبکہ مغرب ودیگر ترقی یافتہ ممالک میں صورتحال اس کے برعکس ہے ۔ چین میں ثقافتی انقلاب کے بعد معاشی تبدیلی رونما ہوئی اور وہ دنیا میں ایک بہت بڑی معاشی منڈی کے طور پر ابھرچکا ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے بزنس کمیونٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دنیا کے 62 افراد کے پاس تین ارب انسانوں سے زیادہ دولت ہے۔ دولت کے ارتکاز سے معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں، غریب اور امیر میں فرق بڑھتا ہے، دولت کی ہوس کی کوئی حد نہیں ہوتی، انصاف اور رحمدلی سے بہتر معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ انہوں نے تاجر برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تاجر برادری میری ٹیم بنے، دولت کی پیداوار، غربت کے خاتمے، کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کا حصہ بنے۔
چین نے غربت کے خاتمے کے لئے روزگارکے مواقع پیدا کر کے غربت کا مقابلہ کیا، سعودی عرب اور دیگرممالک میں تدریجی ٹیکسیشن کا نظام رائج ہے۔ انہوں نے تاجر برادری کو یقین دلایا کہ موجودہ حکومت تاجر برادری کی تمام رکاوٹیں دور کرتے ہوئے انہیں آگے لے کر جائے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حکومت اداروں میں اصلاحات اور سسٹم کو بہتر بنا رہی ہے، اب ہم ماہرین سے رجوع کرنے جا رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک ایف بی آر میں اصلاحات نہیں ہوں گی ہم ٹیکسز کے نظا م کو بہتر نہیں بنا سکیں گے، اس پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ گزشتہ 60 سالوں میں چھ ٹریلین کے قرضے لئے گئے جبکہ گزشتہ دس سالوں کے دوران بیرونی قرضہ 30 ٹریلین تک پہنچ گیا، ان قرضوں پر سالانہ دو ہزار ارب روپے سود، اڑھائی ہزار ارب صوبوں کے لئے جبکہ 1700 ارب دفاع کے لئے مختص ہے، اسی لئے ہمارا بجٹ خسارے کا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران بیرونی قرضے 30 ہزار ارب تک پہنچانے والے اب ایوانوں میں معتبر بن کر تقریریں کرتے ہیں، انہی کی وجہ سے آج بیرونی قرضے اس انتہا کو چھو رہے ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ اگر کوئی گھر مقروض ہو جائے تو اسے قرض سے نجات دلانے کے لئے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینا پڑتا ہے اوراس کے ذریعے گھر کو ٹھیک کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح ہم کوشش کر رہے ہیں کہ سرمایہ کاروں کو پاکستان لایا جائے، آنے والے دنوں میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔ملک میں جب تک احتسابی عمل اور ٹیکس کی وصولی کو یقینی نہیں بنایا جائے گا تب تک ہمارے یہاں معاشی ناہمواری کا خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ سیاستدان ہی یہاں کے سرمایہ دار ہیں جنہوں نے قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا اور رقم بیرونی ممالک میں منتقل کیا ۔ اس لئے سب سے پہلے لوٹی گئی دولت کو واپس لایا جائے اور ملوث افراد کو سزا کے کٹہرے میں لاکر احتساب کو یقینی بنایاجائے تبھی ملک میں تبدیلی آسکتی ہے۔
آج ملکی قرضہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ جسے ادا کرنے کیلئے بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیاجارہا ہے جس کا براہ راست اثر غریب عوام پر پڑرہا ہے جو وہ مہنگائی کی صورت میں ادا کررہے ہیں ۔سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار پالیسی کا خمیازہ عوام آج بھگت رہی ہے۔
ملکی معاشی پالیسی اور ٹیکس نظام میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ غریب عوام کو ریلیف دینے کیلئے منصوبہ بندی کی جائے تاکہ عام لوگوں کی زندگی میں بہتری کے آثار پیدا ہوسکیں یہ تب ہی ممکن ہوگا جب کاروباری شخصیات حکمرانی کی کرسی پر نہیں بیٹھیں گے۔
فلاحی ریاست، سرمایہ دار سیاستدانوں سے نجات
وقتِ اشاعت : March 9 – 2019