|

وقتِ اشاعت :   March 10 – 2019

ملک میں رائج طرز حکمرانی پر چھوٹے صوبوں کی شکایتیں ہمیشہ بآواز بلند سنائی دیتی رہیں ہیں لیکن جنھیں کبھی بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ ان آوازوں میں اہل بلوچستان کی آواز ہمیشہ واضح رہی ہے ۔ ناانصافیوں کی ایک طویل تاریخ ہے جس نے صوبے کے حالات کوکبھی پرسکون نہیں ہونے دیا۔وفاق نے بلوچستان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹااور اس پر کبھی تاسف کا اظہار بھی نہیں کیا۔اس رویے کے خلاف بلوچستان میں قوم پرستوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے بارہا اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا مگر مرکز سے محض طفل تسلیوں کے عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔

18ویں ترمیم کے بعد بھی بلوچستان کے اہم منصوبوں میں صوبے کی براہ راست شراکت داری دیکھنے کو نہیں مل رہی ،اگر اس کی روح پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرایا جائے تو یقیناًصوبے خود کفیل ہوکر پسماندگی کی دلدل سے نکل سکتے ہیں، صرف دعوؤں اور تسلیوں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ 

بلوچستان کے چند اہم منصوبوں ریکوڈک، سیندک، سوئی گیس ،گوادر پورٹ، شپ یارڈبریکنگ کے ہی مکمل اختیارات صوبے کو دئیے جاتے تو آج بلوچستان کی صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ بلوچستان کا بجٹ ہمیشہ خسارے کا ہوتا ہے کیونکہ اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ ترقیاتی اسکیموں اور عوامی فلاح کیلئے مختص کئے جاسکیں ۔لہٰذا ضروری ہے کہ موجودہ حکومت 18ویں ترمیم کی روح پر عملدرآمد کو یقینی بناتے ہوئے صوبوں کو مکمل خود مختاری دے تاکہ صوبے کسی بھی حوالے سے مرکز پر بوجھ نہ بنیں اورچھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے مرکز کی دست نگرنہ بن جائیں ۔

ہونا تو یہ چائیے کہ جہاں سے وسائل نکلتے ہیں سب سے پہلے ان پر اسی علاقے کو حق ملنا چاہئے تاکہ وہ بہتر طریقے سے اپنے لئے منصوبہ بندی کرسکیں اوراپنے عوام کی ترقی کو ممکن بناسکیں۔ گزشتہ روز تھرمیں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ تھرپارکر پورے پاکستان میں سب سے پسماندہ علاقہ ہے اور یہ سب سے پیچھے رہ چکا ہے، یہاں کے 75 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ، گزشتہ 3 سے 4 سال میں تقریباً 13 سو بچے خوراک اور بھوک کی کمی کی وجہ سے مرگئے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اقتدار میں آنے کا سب سے بڑا مقصد پاکستان میں لوگوں کو غربت سے نکالنے کی کوشش کرنا ہے کیونکہ تھرپارکر میں سب سے زیادہ غربت ہے، اس لیے میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔18ویں ترمیم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس کے بعد تقریباً تمام اختیارات صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں لیکن یہ جو صحت کارڈ ایک لاکھ 12 ہزار گھرانوں کو ملے گا، اس سے وہ 7 لاکھ 20 ہزار روپے کا علاج کہیں بھی کروا سکیں گے اور یہ پورے تھرپارکر کے لوگوں کو پہنچائیں گے۔ 

تھر سے نکلنے والا کوئلہ تھرپارکر، سندھ اور پورے پاکستان کی تقدید بدل دیگا لیکن ہماری کوشش ہے کہ اب کسی بھی پسماندہ علاقے سے نکلنے والی معدنیات، تیل، کوئلہ یا کچھ بھی ملے گا تو ہماری پہلی کوشش مقامی لوگوں کو فائدہ دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں پسماندہ علاقوں سے زیادتی کی گئی اور وہاں سے نکلنے والی گیس سے وہیں کے عوام کو سب سے کم فائدہ ہوا لیکن ہمارا فیصلہ ہے کہ پسماندہ اور کمزور علاقوں کو اٹھانا ہے اور غریب طبقے کو اوپر لانا ہے۔ 

ہمارے یہاں ماضی کے حکمرانوں کے غلط فیصلوں اور مخصوص ذہنیت نے صوبوں کو ترقی کی دوڑ سے باہر نکال دیا ہے ، اگر مرکز میں صحیح فیصلے کئے جائیں اور صوبوں کو ان کے جائز حقوق دیئے جائیں تو بنیادی مسائل صوبائی حکومتیں خود حل کرینگی۔ اس لئے ضروری ہے کہ غریب صوبوں کو سب سے پہلے خود مختار بنایاجائے اور یہ قانونی طور پر ہی ممکن ہے۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت صوبوں کے اس مطالبہ پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی تاکہ چھوٹے صوبے اپنے وسائل سے ملنے والی آمدنی کا حصہ بہتر طریقے سے اپنے عوام پر خرچ کرسکیں۔