قوموں کی ترقی میں ہمیشہ پڑھے لکھے طبقے نے کردار ادا کیا۔ آج اگرامریکہ اور مغرب ترقی کے منازل طے کرر ہے ہیں تو اس کی وجہ علمی شخصیات پر سرمایہ کاری ہے ،آج بھی وہاں سب سے بڑا سرمایہ علم کو ہی سمجھا جاتا ہے اور اسی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اجتماعی فائدہ اٹھاکر ترقی کے منازل طے کئے جارہے ہیں۔
ہمارے معاشرے نے بھی ایسی شخصیات کو جنم دیا لیکن بدقسمتی سے ان کے علمی خدمات سے فائدہ اٹھانا تو کجا بلکہ ان کے علمی سوچ وافکار کو منفی طور پر لیتے ہوئے انہیں پیچھے دھکیلا گیا جس کی وجہ سے آج ہمارا سماج آج ٹہراؤ کاشکار ہے کیونکہ سماجی تبدیلی کیلئے محض ادارے اور بڑی بڑی عمارتیں کام نہیں دیتیں بلکہ ان کو چلانے کیلئے باصلاحیت دماغوں کی ضرورت ہوتی ہے تب جاکر ان عمارتوں میں چراغاں ہوتا ہے۔
بلوچستان کی تاریخ ایسے کئی ناموں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کیلئے اپنی زندگی وقف کر دی، سیاست، ادب، صحافت میں ان کا ثانی نہیں ۔اگر ان کے نظریات وافکار کو لیکر آگے چلاجاتا تو آج ہمارے معاشرے کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور ان کے افکار کی بدولت ایک بڑی کھیپ برآمد ہوتی جو سماجی تبدیلی میں اپنا کردار ادا کرتی۔
گوادر کتب میلہ کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان نے جس طرح اظہار خیال کیا ماضی میں بھی وزراء اعلیٰ یہ باتیں دہراتے آئے ہیں کہ بلوچستان کے حقوق کا تحفظ صرف باتوں اور نعروں کے ذریعہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے ہمیں میدان عمل میں آناہوگا، سیاست میں بھی سنجیدگی اور پختگی آئے گی تو صوبہ اور عوام ترقی کرینگے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی اس بات سے سوفیصداتفاق کیا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کے وسائل کی رکھوالی کی بات کرنے والوں نے اسے لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا، حکمران تو اپنی جگہ چھوٹے آفیسران بھی ہاتھ صاف کرتے رہے ، عوام کو گھنٹوں نظریاتی تبدیلی پر لیکچر دینے والوں نے مالی کرپشن کے ساتھ ساتھ نظریاتی کرپشن کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا، بلوچستان کے ساتھ نظریاتی وابستگی ہوتی تو شاید کرپٹ نظریات کے حامل افراد اہم عہدوں پر فائزہ نہیں ہوتے ۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے جس طرح سیاست سمیت ہر شعبہ میں اچھے لوگوں کے انتخاب کی بات کی ،آیا اس طرح عملی طور پرممکن ہے کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اجتماعی مفادات یکساں ہونے کی وجہ سے من پسند افراد کو نوازا جاتا ہے اور اچھے لوگ اس پیمانے پر پورا نہیں اترتے کہ وہ جی حضوری کرتے ہوئے آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائیں ۔جام کمال خان کا کہنا تھاکہ ہم نے نظام کو ٹھیک کرنا، کمزوریوں کو دور کرنا اور اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔
بلڈنگ اور سڑکیں تو بن جاتی ہیں لیکن قوموں کو بنانے اور شعور دینے میں مدتیں لگ جاتی ہیں ہم نے بھی کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کردیئے لیکن قوم بنانے اور اسے شعور دینے کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ علم بہت بڑا سمندر ہے جسکی گہرائی تک پہنچنامشکل ہے، علم زندگی بھر انسان کو سکھاتا رہتا ہے جب تک کوئی شخص اس ماحول میں نہیں ڈھلتا اسکی فکر اور سوچ میں نکھار نہیں آتی اور نہ ہی تقدیر اس کا ساتھ دیتی ہے۔
بلوچستان کے عوام کی خواہش یہی ہے کہ خدا کرے کہ نظام کو بہتر کرتے ہوئے اقرباء پروری کی جوروایت جڑپکڑچکی ہے اسے ختم کردیا جائے اور کمزوریوں کو دورکرنے کیلئے مضبوط ارادے رکھنے والے افراد کو آگے آنے کا موقع دیاجائے تاکہ اداروں میں بہتری آسکے۔
امید ہے کہ حکومتی واپوزیشن قیادت ملکر بلوچستان میں بہتری لانے کیلئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر باصلاحیت اور ایماندار ، پڑھے لکھے طبقے کو موقع فراہم کرتے ہوئے صوبے میں تبدیلی لائیں گے ۔
بلوچستان میں تبدیلی، سیاسی وابستگیوں سے بالاترفیصلوں کی ضرورت
وقتِ اشاعت : March 12 – 2019