معاشرے کی بہتری کا دارومدار اچھی طرز حکمرانی، حقوق کی فراہمی اور عدل سے ممکن ہے۔ جب عوام کا استحصال کیا جاتا ہے، کرپشن ، بدعنوانی، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جاتے تو ایسے حالات میں یقیناًمزاحمت ابھرتی ہے جس کی مختلف شکل ہوتے ہیں۔ بلوچستان واحد صوبہ ہے جو اپنے حقوق سے آج تک محروم ہے۔
حکمرانوں نے جب بھی کرسی سنبھالی تو سب سے پہلے بلوچستان کے عوام سے ناانصافیوں پر معافی مانگی اورساتھ ہی یہ عہد کیا کہ اب یہاں کے لوگ اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج نہیں بنیں گے کیوں کہ انہیں ان کے حق سے بڑھ کر ملے گا اور اب بے تحاشا وسائل کے مالک پسماندگی کے شکار عوام کی تقدیر بدلنے کا وقت آگیا ہے مگر یہ حسبِ روایت محض دعوے ہی ثابت ہوتے رہے۔ بلوچستان کے عوام آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
اس جدید دور میں جہاں یہ تصورکرنا محال ہے کہ جہاں سے گیس نکلے اور وہاں کے مکین اس سے محروم ر ہیں لیکن یہ آج کی سب سے بڑی تلخ حقیقت ہے۔ پورے ملک میں گیس پہنچائی گئی مگر سوئی کے عوام لکڑی کا استعمال کرتے ہیں کیوں کہ انہیں یہ نعمت میسر نہیں۔ بعینہ یہی صورتحال بلوچستان کے دیگر علاقوں کی ہے۔
اور خوش قسمتی سے جہاں گیس دستیاب ہے وہاں بھی شدید سردی کے دوران عوام کو گیس نہیں ملتی، اس کی مثال ایسی ہے کہ پیاسے کو شدید پیاس میں پانی نہ ملے اور بھوکے کو بھوک میں روٹی۔ شدید سردی میں جتنی گیس کی ضرورت ہوتی ہے یہ اتنی ہی دور بھاگتی ہے اور عوام ٹھٹھرتے رہتے ہیں تا وقتیکہ موسم ان پر مہربان ہوجائے۔
بلوچستان میں بہترین روزگار، تعلیم، صحت کاتصور ہی نہیں کیاجاسکتا باوجود اس کے یہاں محکمہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ گزشتہ حکومت کے پانچ سالوں کے دوران انہی دوشعبوں میں ایمر جنسی نافذ کی گئی اور ہر بجٹ میں ایک خطیر رقم ان کی بہتری کے لیے مختص کی گئی لیکن نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام تعلیم اور صحت کے حصول کیلئے صوبے سے باہر جاتے ہیں ۔
ان شعبوں کے لیے مختص اتنی خطیر رقم کہاں خرچ ہوئی اس حوالے سے کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ البتہ ماضی میں بلوچستان میں کی گئی کرپشن کی گونج مرکزی ایوانوں میں سنائی تو دے رہی ہے مگر کرپشن میں ملوث کسی بھی فرد پر ہاتھ نہیں ڈالاگیا۔ بلوچستان کے اہم منصوبوں سے اربوں روپے منافع کی مد میں کمائے گئے اور اتنی ہی رقم کرپشن کے ذریعے وزراء اور آفیسران نے بٹورے ،پھر کس طرح سے توقع کی جاسکتی ہے کہ ایسے معاشرے میں انتشار اور انارکی صورتحال پیدا نہیں ہوگی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ اگر ماضی میں صوبے کے عوام کو پانی، بجلی، صحت، روزگار جیسی سہولتیں ملتیں تو ملک دشمن عناصر کو یہاں کے لوگوں کو ورغلانے کا موقع نہ ملتا، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہم سیاسی طور پر بڑی حد تک ناکام رہے جس سے عوام میں مایوسی پھیلی اور وہ راستے سے بھٹک گئے، اگر حکومتیں صحیح معنوں میں کام کریں تو دوبارہ ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی جس سے بلوچستان کے لوگوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھے، پسماندگی کے باوجود بلوچستان کے عوام کا جذبہ حب الوطنی مثالی ہے، انسان بھٹک بھی سکتا ہے لیکن یہ امراطمینان بخش ہے کہ بھٹکے ہوئے لوگ پھر سے قومی دھارے میں آگئے ہیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے جس طرح ان اہم عوامل کی نشاندہی کی ہے یہ سوفیصد درست ہیں مگر اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے بلوچستان کو اس کے جائز حقوق دینے ہونگے اور یہ کام بلوچستان کے حقیقی نمائندے کرسکتے ہیں کہ کیونکہ عوام بڑی توقع اور امید کے ساتھ انہیں ایوانوں تک پہنچاتے ہیں تاکہ وہ بہترانداز میں قانون سازی کرتے ہوئے عوام کے حقوق کا تحفظ کر یں گے ۔
بلوچستان کے جتنے بھی اہم منصوبے جو گزشتہ کئی سالوں سے اربوں روپے کا منافع دے رہے ہیں اس میں صوبہ کا حصہ ملنا چاہئے اور ساتھ ہی جن نئے منصوبوں کا آغازکیاجارہا ہے ان سے بلوچستان کو حصہ بقدر جثہ ملنا چاہئے تاکہ یہاں کے عوام پسماندگیوں کی دلدل سے نکل سکیں۔
بلوچستان کے وسائل پر عوام کا حق
وقتِ اشاعت : March 14 – 2019