|

وقتِ اشاعت :   March 15 – 2019

بلوچستان میں جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے کا کاروبار زور پکڑتا جارہا ہے ،ہر گلی اور ہر سڑک پر درجنوں میڈیکل اسٹور ادویات فروخت کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میڈیکل اسٹوروں کو اتنا منافع تونہیں ہوگا کہ وہ کمپنی کی کمیشن پر گزارہ کریں۔ان میں سے بڑی تعداد میں میڈیکل اسٹور جعلی ادویات فروخت کرنے ملوث ہیں۔ 

گزشتہ کئی سالوں سے ایسی کوئی خبر نہیں ملی کہ محکمہ صحت کے حکام نے کسی میڈیکل اسٹور پر چھاپہ مارا اور وہاں سے جعلی ادویات جمع کیں اور ان کو لیب ٹیسٹ کے لئے بھیجا۔2014 میں فروری کے مہینے میں پشین سے لوڈ کی گئی جعلی ادویات کی ٹرک پکڑی گئی۔ یہ سہرا کراچی پولیس کے سر ہے، بلوچستان پولیس یا بلوچستان میں صحت کے حکام کا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ جعلی ادویات کراچی میں فروخت ہوتے ہوئے پکڑی گئیں تھیں اور تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ادویات تیار کرنے والی جعلی فیکٹری پشین میں ہے۔

اب یہ صوبائی محکمہ صحت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ کون سی ادویات جعلی ہیں اور کون سی اصلی۔ میڈیکل اسٹور والوں کو پابند کیا جائے کہ وہ عام ایجنٹ سے ادویات نہیں خریدیں بلکہ کمپنی اور اس کے ایجنٹ سے خریدیں تاکہ عوام کویہ تسلی ہو کہ جو ادویات وہ استعمال کرر ہے ہیں وہ اصلی ہیں، نقلی نہیں۔ یہی طریقہ کار پورے بلوچستان کے لئے نافذ ہو۔ تمام میڈیکل اسٹور پر یکساں قوانین لاگو ہوں۔ 

پولیس اور محکمہ صحت کو یہ اختیارات دیئے جائیں جیسا کہ گزشتہ وفاقی حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو دیئے تھے کہ وہ چھاپہ مار سکتی ہیں پولیس اور محکمہ صحت کے افسران کی مدد کے لئے ایک جدید لیب بنائی جائے جہاں پر ادویات کو ٹیسٹ کیا جائے۔گزشتہ روزعالمی ادارہ صحت نے اپنی ایک رپورٹ میں جعلی ادویات کو انسانی زندگیوں کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا۔

عالمی ادارہ صحت نے اپنی رپورٹ میں تین لاکھ سے زائد بچوں کی موت کی وجہ غلط ادویات کے استعمال کوقرار دیا ۔رپورٹ میں تین اقسام کی جان لیوا ادویات کی روک تھام کی سفارش کی گئی ہے۔ پہلی وہ کمپنیاں جو سوچ سمجھ کر غلط ادویات لوگوں تک پہنچاتی ہیں۔

دوسری وہ ادویات جن میں مقدار سے زیادہ اور کم ڈرگز کا استعمال خطرناک ہو جاتا ہے، تیسری وہ ادویات جن کا نہ ہی کوئی لائسنس ہوتا ہے اورنہ ہی کسی متعلقہ ادارے سے منظور شدہ ہوتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کے ڈاکٹر جیول بیرمین کاکہنا ہے کہ دس سال پہلے 75 ملکوں میں 29 ایسی ادویات کا پتہ لگایا گیا تھا جو جان لیوا ہو سکتی تھیں اور دس سالوں بعد 113 ممالک میں 95 غلط ادویات کی موجودگی کی رپورٹ حاصل کی گئی ہے۔ 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غلط ادویات کا استعمال دیگر ادویات سے دس گنا زیادہ ہے جن کی لاگت 200 ارب سے زائد ہے۔ ان ممالک میں ہر سال ایک لاکھ 50 ہزار بچے زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔ بین الاقوامی تنظیمیں ایسی ادویات کی روک تھام کے لیے کام کر رہی ہیں لیکن ہر ملک کو ادویات کی خرید و فروخت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ کوئی غلط دوا مارکیٹ تک نہ پہنچ سکے۔ عالمی ادارہ کی اس رپورٹ کے بعداس امر کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔

کیونکہ بلوچستان میں یہ شکایات عام ہیں کہ افغانستان سے ادویات اسمگل کرکے یہاں آتے ہیں جنہیں میڈیکل سٹوروں کوفروخت کیاجاتا ہے لہٰذا ڈرگ ریگولراتھارٹی کو مکمل فعال بناتے ہوئے ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ ادویات کے نام پر عوام کو زہر فروخت نہ کیاجاسکے۔

ہمارے یہاں چونکہ ہرچیز میں ملاوٹ عام ہے، انسان دشمن مافیاکاروبار کی آڑ میں انسانی زندگیوں سے کھیلتے آرہے ہیں اب ان کی سرکوبی ضروری ہے کیونکہ یہ ہمارے لوگوں کی قیمتی جانوں کا سوال ہے ،کسی کو بلاجواز تنگ کرنے کی ضرورت نہیں مگر ادویات کے نام پر موت فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔