|

وقتِ اشاعت :   March 17 – 2019

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالنے سے قبل برملا کہا تھا کہ ماضی میں بلوچستان کے عوام کو نظریاتی سیاست کے دھوکہ میں رکھاگیا ،عوام کی زندگی میں تبدیلی کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی اس لئے ہماری ترجیح عوام کی خوشحالی ہے اور یہی ایک نظریہ لے کر ہم نے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی ہے جس کے مقاصد واضح ہونگے کہ بلوچستان کے عوام کو ان کا جائز حق دلائینگے جبکہ پی ایس ڈی پی میں اپنا حصہ بڑھانے کی پوری کوشش کرینگے ۔

جام کمال خان جب وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے اور اس کے چند ماہ بعد وفاقی سطح پر ایک اعلیٰ وفد چین کے دورہ پر گیا جس میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بھی شامل تھے ، دورہ کے بعد جب وہ واپس آئے تو وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں میڈیا کو دورہ کے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سی پیک کے متعلق اس طرح شوشا کیا گیا کہ جیسے منصوبے کے ساتھ ہی نوٹوں کی برسات ہوگی حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے کیونکہ کوئی منصوبہ بندی ماضی کی حکومتوں نے نہیں کی صرف عوام کو خوشحالی کے خواب دکھائے جارہے تھے بجائے یہ کہ پلان تشکیل دیتے۔ 

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہاکہ ہمارے پاس صرف زمین اور وسائل ہیں اب اسے کس طرح بروئے کارلانا ہے اس کی منصوبہ بندی ہم نے کرنی ہے تاکہ ہم ان سے بھر پورفائدہ اٹھاسکیں ۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہاکہ ہم زمین کسی بھی سرمایہ کار کو فروخت نہیں کرینگے صرف لیز پر دینگے ۔

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے جس عزم کا اظہار کیا تھا اسے وہ پورا بھی کررہے ہیں مگر سب سے بڑی ذمہ داری وفاقی حکومت کی بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کے مفادات کا مکمل تحفظ کرے جو کہ اب تک نہیں کیا گیا ۔ 

سی پیک سے جڑے دیگر صوبوں میں تو بڑے منصوبوں کا آغاز کیا گیا مگر بلوچستان میں اب تک کوئی منصوبہ نہیں بنا جبکہ سی پیک کی اہمیت و افادیت صرف گوادر کی وجہ سے ہے جو بلوچستان میں واقع ہے ۔ گزشتہ روز جب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سی پیک کا اجلاس چیئر پر سن کمیٹی سینیٹر شیری رحمان کی زیر صدارت منعقد ہوا تو وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے حکام کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کیاگیا ۔

، چیئر پر سن کمیٹی شیر ی رحما ن نے کہا کہ جو معلومات فراہم کی جا رہی ہیں اس سے زیادہ میڈیا کے ذریعے جان چکے ہیں، کمیٹی کو منصوبوں سے متعلق تازہ ترین پیشرفت سے آگاہ کیا جائے،چین بھی سوال کررہا ہے کہ سی پیک سے متعلق پاکستان میں کیا پیشرفت ہوئی ہے، اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک کے مابین آٹھویں جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد صنعتی تعاون کے حوالے سے معاہدے پر دستخط کئے گئے،4خصوصی معاشی زونز پر کام کا آغاز کرنے کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر بات چیت شروع کی گئی۔

گوادر کے حوالے سے مختلف منصوبوں کی گراؤنڈ بریکنگ کیلئے کام جاری ہے،کوشش کی جا رہی ہے کہ چین میں منعقد ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے قبل سی پیک منصوبوں کے حوالے سے تعاون کے نئے مواقعوں کو تلاش کرتے ہوئے حتمی فیصلہ کیا جائے،فی الوقت زراعت، غربت کے خاتمے، تعلیم، صحت کی سہولیات، واٹرسپلائی اور ووکیشنل ٹریننگ پر کام کیاجا رہا ہے۔

ایک سال کے دوران تیزی سے متعدد منصوبے مکمل کریں گے، دیگر منصوبوں کو دو سے تین سالوں میں مکمل کرلیا جائے گا،پاکستان نئے منصوبوں کی فہرست اکیس مارچ تک چین کو فراہم کرے گا اور چین اس پر اپنا ردعمل چوبیس اپریل کو دے گا۔

اپریل 2019میں دونوں ممالک کے مابین سماجی و معاشی ترقی کے معاہدوں پر دستخط ہوں گے، تمام صوبوں میں کم ترقی یافتہ علاقوں میں سی پیک منصوبے بنائے جائیں گے،رشکئی میں خصوصی معاشی زون کی گراؤنڈ بریکنگ اپریل میں کرلیں گے، رواں ماہ کے اختتام پر گوادر میں بین الاقوامی ایئرپورٹ کاافتتاح بھی کریں گے،رواں سال پاک چائینہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اور پاک چائنہ ہسپتال کا افتتاح بھی کریں گے۔

گوادر پر دوسری ایکسپو کا انعقاد 28 اور 29مارچ کو ہو گا۔ کمیٹی رکن سینیٹر محمد اکرم نے کہا کہ گوادر میں جس طرح سے زمینیں دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کو دی جا رہی ہیں اس پر مقامی آبادی کو تشویش ہے ابھی تک زمینوں کے حوالے سے مختلف معاملات طے نہیں ہوئے، زبردستی زمینوں کی الاٹمنٹ کی جا رہی ہے، گوادر کے لوگ گزشتہ چار سالوں سے اسی شش و پنج میں کوئی کام نہیں کر پا رہے۔

سینیٹر کبیر محمد شہی نے کہا کہ ہم نے حکومتوں سے بلوچستان کے حوالے سے صرف انشاء اللہ سنا ہے میں یہ ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ بلوچستان میں سی پیک کے حوالے سے آج تک ایک روپے تک کا کام بھی نہیں ہوا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس سے یہ تو واضح ہوگیا کہ سی پیک سے جڑے بلوچستان میں کوئی بھی منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا صرف یہ کہاجارہا ہے کہ بہت جلد منصوبوں کو مکمل کیاجائے گاالبتہ پنجاب میں اہم منصوبوں کو نہ صرف مکمل کیا گیا بلکہ آج اس کے ثمرات وہاں کے عوام کو مل بھی رہے ۔

ہیں جواچھی بات ہے مگر خدارا ماضی کی روایات کو نہ دہرایا جائے کہ بلوچستان کے منافع بخش منصوبوں سے تو دیگر صوبوں کو فائدہ پہنچایاگیا اور خود بلوچستان بہت پیچھے رہ گیا، اب یہ روایت ختم ہونی چاہئے ۔

آج بھی بلوچستان کی حکومتی واپوزیشن جماعتیں یہی صدائیں بلند کررہی ہیں کہ کم ازکم صوبہ کے اپنے منصوبوں سے ملنے والے فوائد ہمارے لوگوں کو تو ملنے چاہئیں جو ہمارا جائز حق ہے اوریہی مطالبہ سی پیک کے متعلق بھی کیاجارہا ہے امید ہے کہ اب انصاف کے تقاضوں کوپورا کیاجائے گا اور بلوچستان کو مزید شکایت کا موقع نہیں دیا جائیگا۔