|

وقتِ اشاعت :   March 18 – 2019

بلوچستان میں فوڈ اتھارٹی کے حوالے سے تواتر سے انہی کالموں میں اس کی غیر فعال ہونے کی نشاندہی کرتے آرہے ہیں اور یہ مطالبہ بارہا کیا گیا کہ صوبہ بھر میں غذائی اجناس کے معیار کو پرکھنے کیلئے فوڈ اتھارٹی کو مکمل فعال بناتے ہوئے ریسٹورنٹس، فوڈ پوائنٹس، غذائی اجناس کے ملزاور فیکٹریوں کا باقاعدہ دورہ کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ عوام کو معیاری غذائی اجناس مل سکیں۔ 

ماضی میں مکمل کوتاہی برتی گئی اس اہم نوعیت کے معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جبکہ یہ عوام کی زندگی کا سوال ہے جس سے ملاوٹ کرنے والے مافیا زکھیل رہے ہیں۔ کوئٹہ میں سینکڑوں ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس ہیں جہاں شہریوں کی بڑی تعداد جاتی ہے ۔ اب یہ کاروبار وسعت اختیار کرتا جارہا ہے مگر اس پر نگاہ رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ آیا عوام کو معیاری غذافر وخت کی جارہی ہے یا کاروبار کی آڑ میں عوام کی زندگیوں سے کھیلاجارہا ہے ۔ 

کوئٹہ شہر کے بعض مقامات پر یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ فیکٹری اور ملز میں ملاوٹ شدہ آٹا اور جعلی گھی تیار کیاجاتا ہے جبکہ گھروں کے اندر بھی ملاوٹ شدہ اشیاء بناکر مارکیٹ میں فروخت کیاجا رہا ہے ۔ اگر بلوچستان فوڈ اتھارٹی فعال ہوکر تمام فیکٹریوں اور ملزمیں غذائی اجناس کے معیار کو پرکھنے کیلئے دورہ کرے تو یقیناًعوام کو اس مافیاسے چھٹکارا ملے گا کیونکہ سزا کے خوف سے ملاوٹ میں ملوث عناصر یہ گھناؤنا کاروبار بند کرینگے۔ 

نیز اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ جو بھی ملاوٹ میں ملوث پایا گیا اسے سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی جرات نہ کرے۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیرصدارت بلوچستان فوڈ اتھارٹی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا، جس میں فوڈ اتھارٹی کو بھرپور طریقے سے فعال بنانے کے لئے اہم فیصلوں کی منظوری دی گئی، ڈائریکٹر جنرل بلوچستان فوڈ اتھارٹی میجر (ر) بشیر احمد نے اجلاس کو اتھارٹی کے امور کے حوالے سے بریفنگ دی۔ 

اجلاس میں تعلیمی اداروں میں کاربونیٹڈ ڈرنکس کی فروخت اور استعمال پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ مضر صحت اجینوموٹو کی خریدوفروخت پر بھی پابندی عائد ہوگی اور گٹکا کی خریدوفروخت اورا سمگلنگ پر عائد پابندی پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے گا۔اجلاس میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ غیر معیاری اور صحت کے اصولوں کے منافی تیار کی گئی اشیاء خوردونوش کے استعمال سے عوام کی صحت پر بالعموم اور بچوں اور خواتین کی صحت پر بالخصوص مضر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما اور آئرن کی کمی کے باعث خواتین کی صحت بھی متاثر ہورہی ہے، اس صورتحال کے تناظر میں اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ فلورملوں اور خوردنی تیل بنانے والی فیکٹریوں کو صحت کے اصولوں اور مقررکردہ معیار کے مطابق آٹے اور تیل میں ضروری وٹامنز، منرلز اور آئرن شامل کرنے کا پابند کیا جائے گا۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ چھ ماہ کے اندر ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں فوڈ ڈائریکٹوریٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا، اجلاس میں بلوچستان فوڈ اتھارٹی میں اسپیشل مجسٹریٹ کی تعینانی اور ڈیپوٹیشن کی بنیاد پر محکمہ خوراک اور محکمہ صحت سے فوڈ ٹیکنالوجسٹ اور ماہرین صحت کی خدمات اتھارٹی کے سپرد کرنے کی منظوری بھی دی گئی،اجلاس نے بلوچستان فوڈ اتھارٹی کو موبائل ٹیسٹنگ یونٹ اور دیگر ضروری سہولتوں کی فراہمی کی بھی منظوری دی ۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان فوڈ اتھارٹی کی کاروائیوں میں تاجر تنظیموں کے مقرر کردہ نمائندے بھی شامل ہوں گے، ملاوٹ اور جعلی اشیاء خوردونوش بنانے والوں کی اطلاع دینے والے کو انعام دیا جائے گا اور اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ دکانداروں میں مضر صحت اور ملاوٹ شدہ اشیاء خوردونوش فروخت نہ کرنے کے حوالے سے آگہی مہم شروع کی جائے گی۔ 

صوبائی حکومت کی جانب سے ان فیصلوں کو عوامی سطح پر سراہا جارہا ہے کہ دیرآید درست آید کیونکہ دیگر صوبوں میں فوڈ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جہاں کارروائیاں بھی کی جارہی ہیں ۔

پنجاب اور سندھ میں ملاوٹ سمیت حرام جانوروں کے گوشت فروخت کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں ملک بھر میں ایک بہت بڑا مافیا سرگرم ہے جو انسانی زندگیوں سے کھیل رہاہے ،ایسے عناصر کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد کا اعتماد ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس سے اٹھتاجارہا ہے جس کا اثر اچھے کاروباری ریسٹورنٹس اور فوڈ پوائنٹس پر بھی پڑھ رہا ہے۔ 

اگر ادارے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں تو ایماندار کاروباری شخصیات کو ریلیف ملے گا اور شہریوں کا بھروسہ بحال ہوجائے گا۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو یقینی بنانا اب فوڈ اتھارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مافیاز کے خلاف کریک ڈاؤن کرے اور شہریوں کو معیاری غذائی اجناس کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔