|

وقتِ اشاعت :   March 20 – 2019

بلوچستان کی ترقی کا دارومدار اس کے اپنے وسائل پر ہے مگر بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبہ سے نکلنے والے وسائل سے وفاق اور کمپنیاں ہی فائدہ اٹھارہی ہیں جبکہ بلوچستان کو اس کے اپنے ہی خزانوں سے محروم رکھا گیا اور رکھا جارہا ہے ۔

صوبے کی سیاسی جماعتیں اور عوام اس بات پر شکوہ کناں ہیں کہ بلوچستان کے معدنی وسائل سے صوبہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور نہ ہی بلوچستان کے وسائل سے متعلق معاہدوں بارے یہاں کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جاتا ہے اور نہ ہی صوبے کے عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے ۔ 

استیصال در استیصال بلوچستان کا مقدر بنا دیا گیا ہے اور المیہ یہ ہے کہ وفاق اپنے اس رویے کو بدلنے پر اب بھی تیار نہیں باوجود اس کے کہ ان نا انصافیوں کے خلاف مزاحمت مسلح صورت اختیار کر گئی اور بلوچستا ن کے حالات مزید ابتری کی طرف چلے گئے۔

نا انصافیوں کی انتہادیکھئے کہ وفاق یہاں کے وسائل کا سودا کررہا ہے اور منافع کما رہا ہے جبکہ بلوچستان کے عوام کو تو چھوڑئیے ، یہاں کی سیاسی قیادت کو بھی پتہ نہیں کہ سوئی گیس ، سیندک، ریکوڈک، کوئلہ ، شپ بریکنگ یارڈسے اب تک کتنا منافع کمایا گیا اور کتنی رقم کمپنیاں لے گئیں ،اوربلوچستان کے حصے کا ذکر ہی کیا کیا جائے جو شرمندگی کی حد تک کم ہے۔بلوچستان کے اپنے وسائل اس کی قلیل آبادی کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہیں لیکن وفاق کی مہربانیوں سے بلوچستان آج ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہے۔ اگربلوچستان کے وسائل پر اس کو مکمل اختیار دیا جاتا تو کون پاگل ہے جو لڑنے مرنے پر اتر آتا ۔ 

گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان نے جس طرح معدنی وسائل سے متعلق ایک منعقدہ سیمینار کے دوران کہا کہ بلوچستان کے محاصل میں اضافے کے لئے سخت فیصلے ناگزیر ہیں، اگر صوبے کی آمدنی میں اضافہ نہ کیا گیا تو ترقی نہیں ہوگی اور جب ترقی نہیں ہوگی تو امن وامان خراب ہوگا جس سے سیاستدان، بیوروکریٹس او ر ہر طبقہ زندگی متاثر ہوگا،ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ اپنے انفرادی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صوبے کو بچانا ہے۔

بے پناہ قیمتی معدنی وسائل رکھتے ہوئے بھی ہماری سالانہ آمدنی صرف پندرہ ارب روپے ہے، اگرصرف معدنی شعبہ کو ترقی دے کر جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو اس کی آمدنی سے پورے صوبے کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے،بلوچستان ریکوڈک، سیندک، سی پیک، ساحل ووسائل اور قیمتی معدنی ذخائر کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے، ان منصوبوں اور وسائل پر ہمیشہ بات چیت ہوتی ہے اور سیمینار بھی منعقد ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ابھی تک ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھاسکے ہیں اور نہ ہی ان منصوبوں کا صوبائی محاصل میں کوئی بڑا حصہ ہے۔ 

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی بات سوفیصد درست ہے بلوچستان کی آمدنی میں بغیر اضافہ کے ترقی کاسوچا بھی نہیں جاسکتا ، ماضی کی حکومتوں نے کسی طور بھی وفاقی حکومتوں کے سامنے یہ مدعا دو ٹوک انداز میں نہیں رکھا اور نہ ہی کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایاگیا، اس لئے آج تک یہ مسئلہ اپنی جگہ اسی طرح موجود ہے مگر اس کا حل آئینی طریقہ ہے جس کیلئے صوبائی حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ مل کرراستہ نکالناہوگا کہ کس طرح سے ازسرنومنصوبوں کے معاہدوں پر نظر ثانی کی جاسکے اور صوبہ کو دی جانے والے آمدنی کو بڑھایاجاسکے۔

اگر صورتحال کو اب بھی بلوچستان کے حق میں بہتر نہیں کیا گیا تو سی پیک سے جڑے منصوبوں سے بھی یہاں کے عوام کوکوئی خاص فائدہ نہیں پہنچے گا ۔گوادر پورٹ جو سی پیک کا منبع ہے ، اس کا انتظام و انصرام صوبے کے حوالے کیا جائے تاکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے صوبے کے عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کی جاسکیں۔

ہم ایک بار پھرامید باندھتے ہیں کہ وفاق بلوچستان کے وسائل کو اہل بلوچستان کے لیے چھوڑے گی اور ان سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی بلوچستان کی سر زمین اور باشندوں پر خرچ ہونے دے گی تاکہ انہیں بھی احساس ہو کہ زندگی بہت خوبصورت چیز ہے ، یہ صرف درماندگی نہیں بلکہ زندگی ہے۔