گزشتہ 17 سالوں سے افغانستان جنگ کی لپیٹ میں ہے اور اس کے جتنے تباہ کن اثرات خطے پر پڑے ہیں ان کا اندازہ بھی لگانا مشکل ہے، اس جنگ میں یقیناًافغانستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور اب تک اس کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے بلکہ اس جنگی شدت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
شاید ہی کوئی ایسا روز گزرے کہ افغانستان میں کسی بھی مقام پر دھماکے، خود کش حملے جیسے واقعات رونما نہ ہوں۔ گزشتہ کئی برسوں سے صرف اعلانات تک یہ باتیں سنائی دیتی رہیں کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے مذاکرات پر زور دیا جارہا ہے اور فریقین کو میز پر لانے کی کوششیں جاری ہیں مگر نتیجہ کچھ نہیں نکل رہا ۔ حال ہی میں غیرملکی خبررساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان اور امریکی اتحادیوں میں جاری افغان جنگ نے سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کیا ہے۔
جنگ میں بچوں کو مارا گیا، یتیم کیا گیا اور فروخت کیا گیا ہے۔افغانستان میں نصف سے زائد آبادی کی عمر 15 سال سے کم ہے اور 17 سال سے جاری جنگ میں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ نے رواں برس ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق 2018 میں افغانستان میں 927 بچے مارے گئے جو کہ دستیاب ریکارڈ کے مطابق ایک سال میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔
امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے کارکنوں کے مطابق افغانستان میں یتیم بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور انہیں گلیوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔افغانستان میں یونیسیف کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جون 2018 میں شائع یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 37 لاکھ بچے اسکول نہیں جارہے۔ سیکیورٹی، ہجرت اور غربت کے سبب بچے اسکول نہیں جا رہے۔
یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ جنگی صورتحال نے شدید تباہی مچا رکھی ہے اور اس جنگ نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، 17 سال قبل یہ خطہ دہشت گردی اور شدت پسندی سے کوسوں دور تھا بدقسمتی سے عالمی مفادات کی وجہ سے افغانستان سمیت پورے خطے کو تباہی کی جانب دھکیلا گیا جس کے اثرات پڑوسی ممالک پر بھی پڑے۔
پاکستان میں دہشت گردی، شدت پسندی جیسی سوچ اسی جنگ کے بعد ابھری ،تاریخ گواہ ہے کہ یہاں رہنے والے اقوام جنگجوذہنیت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی یہاں اسلحہ کلچر، منشیات ودیگر برائیاں عام تھیں، یہ سب افغان وار کے بعد پاکستان کے حصہ میں آئے جس کا خمیازہ یہاں کی عوام بھگت رہی ہے۔ امریکہ اور عالمی برادری تو امن کے بڑے دعویدار بنتے ہیں مگر افغانستان اور خطے میں ان کی پالیسی جنگی طرز کی ہی رہی ہے جس کے باعث یہاں امن وامان کی صورتحال میں بہتری نہیںآرہی ۔اگر امریکہ وعالمی برادری افغان مسئلے کو سنجیدگی سے لیں تو یقیناًنتائج برآمد ہونگے ۔
افغانستان کی حکومت کو امریکہ جب تک آزادانہ فیصلے کرنے نہیں دے گا مذاکرات کے نتائج نہیں نکلیں گے۔ اس صورتحال میں افغا ن قیادت کا بااختیار ہونا ضروری ہے تب جاکر فریقین کے درمیان نتیجہ خیز بات چیت ممکن ہوگی ۔
افغانستان میں سب سے بڑا مسئلہ اس وقت عالمی طاقتوں کی مداخلت ہے اور جب تک یہ برقرار رہے گی نتائج کی توقع نہیں رکھی جاسکتی، اس لئے افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے کیلئے عالمی مداخلت ختم ہونی چاہئے اور ثالثی کے طور پر وہ اس حوالے سے پالیسی اپنائیں وگرنہ جو صورتحال اب تک بنی ہے اس کا نقشہ مزید بگڑے گا جو کہ کسی کے مفاد میں نہیں کیونکہ افغان جنگ کے انتہائی منفی اثرات پڑے ہیں ۔
افغانستان کے عوام نے اس جنگ کے دوران بہت زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں وہاں کے لوگ امن کی راہ تک رہے ہیں ، امریکہ اور عالمی طاقتوں کو افغانستان کے حوالے سے اپنی سوچ اور پالیسی اب بدل لینا چاہئے۔
افغانستان میں امن، عالمی مداخلت کے بغیر
وقتِ اشاعت : March 21 – 2019