|

وقتِ اشاعت :   March 27 – 2019

بلوچستان بجٹ کا جب تک تاریخی طور پر جائزہ نہیں لیاجائے گا، یہ رونا حکومتی واپوزیشن اراکین کی جانب سے جاری رہے گا ۔گزشتہ حکومت کے دوران بھی بجٹ سے شاید ہی کوئی خوش رہا ہے محض تقاریر اور تنقید سے کوئی راستہ نہیں نکلے گا اور یہ ذمہ داری حکومت بشمول اپوزیشن کی بھی ہے کہ ایک پلاننگ اور بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ہی بجٹ کے حقیقی مقاصدکو حاصل کیاجاسکتا ہے بلکہ عوامی مفادات کیلئے اسے خرچ بھی کیاجاسکتا ہے۔ 

گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان میں ترقی کا عمل جمود کا شکار ہے ۔یوں تووفاقی بجٹ میں بلوچستان کے لیے بڑی رقم کا مختص ہونا مشہور ہے لیکن سال کے خاتمے پر عوام کوعلم ہوجاتا ہے کہ اس کا نصف حصہ بھی بلوچستان پر خرچ نہیں ہوا بلکہ وہ رقم وفاقی خزانے سے بلوچستان کو دی ہی نہیں گئی۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ صوبائی حکمرانوں نے کبھی اس کا نوٹس ہی نہیں لیا صرف اپنی کرسی بچاتے رہے اور وفاقی حکمرانوں کے سامنے فرمانبردار بننے کی کوشش کرتے رہے، نہ ہی بلوچستان کے منتخب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین نے سختی کے ساتھ اس فراڈ کا کبھی مقابلہ کیا۔

وفاق نے تو بلوچستان کے حوالے سے یہ ثابت کردیا ہے کہ اگرچہ وفاقی بجٹ میں جورقم صوبے کے لیے مختص ہوتی ہے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ بلوچستان میں خرچ بھی ہوگی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے احکامات کے مطابق بھی صوبوں کو اس رقم میں لازمی بچت کرنا ہے۔

2016ء کے دوران بجٹ میں ہدف 339ارب روپے رکھا گیا جو آئی ایم ایف کے حکم کے مطابق بچت کے زمرے میں آتاہے۔ 1970ء اور 1980کی دہائیوں میں بلوچستان کا ترقیاتی بجٹ صرف چند کروڑ پر مشتمل ہوتا تھا۔ 1990اور 2000کی دہائیوں میں چند ارب اور 2010کی دہائی میں پچاس ارب سے زیادہ رہی۔ 

جہاں تک صوبائی ترقیاتی پروگرام کا تعلق ہے اس کو عوام الناس کے نمائندے اپناذاتی ترقیاتی پروگرام تصور کرتے ہیں خصوصاً جنرل ضیاء کے دور میں غیر سیاسی بنیاد پر انتخابات کرائے گئے اور الیکشن کے بعد مسلم لیگ بنائی گئی جس میں تمام مفاد پرستوں اور موقع پرستوں نے شمولیت اختیار کی اور اس طرح مسلم لیگ کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی پارٹی بنا ڈالی۔ وفاق اور تمام صوبوں میں مسلم لیگ کی حکومت تھی شاید ہی کوئی ایک ایسا فرد اپوزیشن میں بیٹھا ہو جسے شریف کہاجاسکے۔ 

اس میں ایم پی اے اور ایم این اے اسکیم سب سے بڑی لالچ تھی اس سے اکثر اراکین اسمبلی کروڑ پتی اور ارب پتی بن گئے۔گزشتہ چند ادوار میں بلوچستان کے ہر ایک ایم پی اے کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 20کروڑ روپے سالانہ سے تجاوز کرتا گیا ،یہ پوری رقم سالانہ 50ارب روپے سے زائد بنتی ہے اس کے باوجود اس رقم سے صوبائی حکومت کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا۔

صوبہ میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی اور نہ ہی اتنی بڑی رقم سالانہ خرچ کرنے کے باوجود بلوچستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ دوسرے الفاظ میں پوری دولت 1985ء سے لے کر آج تک ضائع ہوگئی۔اس تمام عرصہ میں بلوچستان میں صوبائی حکومت کا کوئی ایک پروجیکٹ بھی نہیں بنا۔

ایک طرف پوری کی پوری صوبائی ترقیاتی پروگرام اور اس کی رقم ضائع ہوجاتی ہے اور دوسری جانب وفاق اپنی اعلانیہ بجٹ کے نصف سے بھی کم کا حصہ بلوچستان پر خرچ کرتا ہے۔گزشتہ روز اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن ایک بار پھرپی ایس ڈی پی پر احتجاج کرتی نظرآئی جبکہ حکومت واضح کرتی رہی کہ ماضی میں کتنے بجٹ پیش کئے گئے جن میں عوامی مفاد ات کے اسکیمات مکمل ہوئے ،جواب کچھ بھی نہیں ۔

اس لئے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی بجٹ کیلئے جب تک سنجیدگی سے مدعا نہیں رکھا جائے گا تب تک یہ مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا۔ بلوچستان میں ترقی کے ماضی کے دعوے سب کے سامنے ہیں۔ حکمران یا اپوزیشن اراکین میں سے کسی کے حلقے میں کوئی ایسا عوامی منصوبہ نظر نہیں آتاجسے بطور مثال پیش کیا جاسکے۔