|

وقتِ اشاعت :   March 28 – 2019

بلوچستان کو ترقی دینے کے دعوے اور اعلانات تو ہمیشہ ہر حکومت اور ہر دور میں سنائی دیتی رہی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں لوگوں کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ علاج معالجہ ، تعلیم ، روزگار کی باتیں تو خواب جیسی ہیں۔ بلوچستان کی پسماندگی کی حقیقی تصویر بہت بھیانک ہے اور اس سے بھی بھیانک صورتحال یہ ہے کہ ہم اس کے بارے میں سننا ہی نہیں چاہتے، اسے دور کرنے کی کوشش تو دورکی بات ہے۔

المیہ یہ ہے کہ حکمران جماعتیں جب حکومتی بھاگ دوڑ سنبھالتی ہیں توسب سے پہلے بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں و محرومیوں اور ماضی کی پالیسیوں پر نہ صرف معافی مانگتی ہیں بلکہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ ترقی کے جھوٹے اورکھوکھلے دعوے کرتے ہیں مگر کسی نے بھی بلوچستان کی ترقی کواہمیت نہیں دی۔ 

بدقسمتی سے ہمارے صوبائی حکمرانوں کی دلچسپی بھی اس میں نظرنہیں آتی تھی کیونکہ ایم پی اے اورترقیاتی فنڈز سے ہی ان کے وارے نیارے ہوجاتے پھر بھلا انہیں بلوچستان کی محرومی اور عوامی ترقی کی کیا پرواہ، سووہ اپنی کرسی سے چمٹے رہے نتیجہ یہی نکلا کہ انہیں عوام میں کسی قسم کی پذیرائی نہیں ملی۔ بلوچستان میں آج جس طرح پی ایس ڈی پی پر واویلا مچایاجارہا ہے کہ حکومتی حلقوں میں صرف ترقیاتی کام ہورہے ہیں جبکہ اپوزیشن حلقے نظرانداز کئے جارہے ہیں ۔

اگر حقیقی جائزہ لیاجائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ اگر گزشتہ ستر سالوں کے دوران حکومت سے جڑی جماعتوں کے حلقوں میں ہی ترقیاتی کام ہوتے تو آدھے بلوچستان کی صورتحال آج یکسر مختلف ہوتی کیونکہ بلوچستان کی تاریخ رہی ہے کہ اکثریت حکومت میں رہی ہے جبکہ اپوزیشن اقلیت میں۔ بہرحال موجودہ صورتحال کے تناظر میں اس بات پر زور دینا چاہئے کہ کس طرح سے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کی اسکیموں کو منظور کرایا جاسکتا ہے۔ 

یہ صرف حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔جس طرح حکومت بلوچستان نے مالی سال 2019-20ء کے وفاقی پی ایس ڈی پی کیلئے 42نئی اسکیمیں شامل کرنے کی تجویز وفاقی حکومت کو ارسال کردی ہے، یہ خوش آئند ہے ۔ 

ان اسکیموں میں ضلع آواران میں 60کلومیٹر طویل جھاؤ ،بیلہ روڈ ،ڈیرہ بگٹی میں سنگسیلہ سے ڈیرہ بگٹی ،سوئی سے کشمور شاہراہ کو دورویہ کرنے ،تحصیل سوئی کی ترقی کے لئے اسکیم ،گوادرمیں دی میزر کے مقام پر پشتوں کی تعمیر،کلمتی ہور کی ترقی ،میرانی ڈیم سے گوادر تک پانی کی پائپ لائن بچھانے ،سبی میں ہلک ڈیم ،جھل مگسی میں نوتال گنداواہ روڈ کی تعمیر ،کچھی میں بولان ڈیم ،قلات میں بی بی نانی سے خالق آباد تک سڑک کی تعمیراور خالق آباد سے نوشکی روڈ کی تعمیر ،کیچ میں تربت مند روڈ کی تعمیر ،تربت پسنی روڈ کی تعمیر،خضدار میں خضدار سارونہ روڈ ،سنی غر ڈیم ،لسبیلہ میں گڈانی انڈسٹریل زون کی تعمیر ،وندر ڈیم کی تعمیر ،کنڈملیر اور میانی ہور کی ترقی ،حب انڈسٹریل اسٹیٹ کے انفراسٹرکچر کی بہتری ،حب میں 406ایکڑ پر اسپیشل اکنامک زون ،چاغی میں ڈاک نوشکی ،چاغی روڈ کی تعمیر،پنجگور میں پاک ایران بارڈر چیدگی سے پنجگور ،کچک ،پشت کوٹی تک سڑک کی تعمیر لورالائی میں سپیرراغہ خانوزئی سے لورالائی ،قلعہ سیف اللہ تک کی چوڑائی ،قلعہ عبداللہ میں بلیک ٹاپ روڈ کی تعمیر،لسبیلہ سے معروف تک بلیک ٹاپ روڈ،دینارڈیم کی تعمیر ،کوئٹہ میں کوئٹہ سے کچھ تک روڈ کو بلیک ٹاپ کرنے ،سراخلہ ڈیم کی تعمیر،پنجپائی میں ڈیم کی تعمیر ،کوئٹہ ڈویلپمنٹ پیکج،برج عزیز ڈیم کی تعمیر ،ضلع سبی میں تلی تنگی ڈیم ،بابر کچھ ڈیم کی تعمیر ،واشک میں خاران بسیمہ روڈ ،زیارت میں زیارت کراس سے لورالائی تک سڑک کی مرمت جبکہ صوبے میں 100ڈیمز بنانے کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے ۔

اسکے علاوہ چائنیز گرانٹ سے بننے والے تین منصوبے جن میں گوادر میں نئی فشنگ جیٹی،گوادر سمارٹ انوائرمنٹل سینی ٹیشن سسٹم اور گوادر ہسپتال کو پچاس بیڈ سے 300بیڈ پر توسیع دینے کے منصوبوں کو صرف پی ایس ڈی پی میں ریفلیکٹ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب اسکیموں کی فہرست تو وفاق کو ارسال کردی گئی ہے، اس پر عملدرآمد کس حد تک ہوگا یہ کہنا قبل ازوقت ہے مگر یہ تمام اسکیمیں عوامی نوعیت کے ہیں جن کی منظوری دیکر وفاق بلوچستان کے ساتھ ماضی کی روش کو تبدیل کرنے کا آغاز کرسکتی ہے۔ بلوچستان نصف پاکستان پر مشتمل ہے جس کے بغیر ملکی ترقی کا خواب ادھورا رہے گا اور بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی شمار ہوگی ۔