|

وقتِ اشاعت :   March 30 – 2019

بلوچستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں اکثر مخلوط حکومت بنتی آئی ہے۔ ایسی صورت میں نظام کی بہتری کی گنجائش کم ہی رہتی ہے کیونکہ پھر شخصی مفادات زیادہ اہمیت اختیار کرتے ہیں۔ پنجاب،سندھ اور کے پی کے کی نسبت بلوچستان میں سیاسی ڈھانچہ یکسر مختلف رہا ہے ۔ بلوچستان کے اسی سیاسی کلچر نے پسماندگی اور کرپشن کو دوام بخشااور اس طرح صوبہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہا۔ 

اگر ستر سالہ تاریخ کے دوران ترقیاتی اسکیموں کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ترقیاتی فنڈز شخصیات کی خواہشات کے مطابق خرچ کئے گئے۔اور عوامی مفادات اور ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام نہ صرف بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوان آج بھی بیروزگاری کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں سے شدید مایوس ہوگئے ہیں ۔ 

کسی بھی معاشرے کی ترقی اور بہتری میں کلیدی کردار سیاسی جماعتوں کا ہوتا ہے جو ایک فکر ونظریہ کے تحت عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا منشور بناتے ہیں اور اس پرعمل کرتے ہیں۔

ویسے پورے ملک کی سیاسی جماعتوں نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا کیونکہ ان کی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہیں،پانامہ لیکس اس کی واضح مثال ہے جس میں سینکڑوں اہم شخصیات کے نام سامنے آئے جنہوں نے بڑے پیمانے پر کرپشن کی ہے، پھر کس طرح یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ملک میں معاشی، سماجی تبدیلی آئے گی ۔

گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ نظام کی تبدیلی آسان نہیں، اچھی طرز حکمرانی کے ذریعہ ہی نظام میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، مصنوعی اور دکھاوے کی سیاست نے ملک کو تباہ کیا، صوابدیدی اختیارات نظام کے لئے خطرناک ثابت ہوئے، پی ایس ڈی پی سماجی ترقی کا ذریعہ ہے لیکن بدقسمتی سے ماضی میں جس طریقے سے پی ایس ڈی پی بنتی رہی ہے اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ سکا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے عوامی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، عوام کو بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لئے موجودہ نظام میں بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں، خاص طور سے اختیارات کی مرکزیت کا خاتمہ اور انہیں نچلی سطح تک منتقل کرکے فیصلہ سازی کا اختیار ڈویژن اور ضلع کی سطح تک لے جانے کی ضرورت ہے۔ 

بلوچستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں حکومت سازی بھی باقاعدہ وزارتوں کی بندر بانٹ کے ذریعے ہی تشکیل پاتی رہی ہے جبکہ دیگر مراعات کی فہرست الگ تیار کی جاتی ہے جس کے بعد مخلوط حکومت معرض وجود میں آتی ہے جس کے بعد ان کے ہاتھ مکمل کھل جاتے اور جس منصوبے پر چاہے ہاتھ صاف کرجاتے ، ترقیاتی منصوبوں میں اپنا حصہ بٹورتے، ایم پی ایز فنڈزجو خاص عوام اور اپنے حلقے کی ترقی کے نام پر لئے جاتے ان سے جائیدادیں بنائی گئیں یہاں تک کہ ٹھیکہ اور ملازمتیں بھی فروخت کی جاتی رہیں۔

آج اس نفسیات نے اپنی جڑیں مضبوط کرلی ہیں جس سے اتنی آسانی سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہے جس کیلئے بڑے فیصلے کرنے ہونگے جس میں کسی کو رعایت نہیں ملنی چاہئے تب جاکر بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں محض دعوؤں اور نعروں سے تبدیلی نہیں آئے گی ،نہ ہی نظام بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ بلوچستان میں سیاسی مصلحت پسندی اور بلیک میلنگ کلچر کی حوصلہ شکنی نہیں کی جائے گی تب تک صوبہ کے مسائل حل نہیں ہونگے۔