|

وقتِ اشاعت :   April 5 – 2019

پیٹرول، ایل پی جی اور بجلی کے بعد درآمدی ایل این جی کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی( اوگرا) نے اپریل کے لیے درآمدی ایل این جی کی قیمت بھی بڑھا دی۔ سوئی نادرن اور سوئی سدرن کے لیے گیس کی قیمت میں 0.27 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ کیا گیا ہے۔اوگرا کی جانب سے سوئی نادرن کے لیے گیس کی قیمت 10.57 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ سوئی سدرن کے لیے گیس کی قیمت 10.52 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کی گئی ہے۔

مارچ کے دوران سوئی نادرن کے لیے قیمت 10.30 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی تھی جبکہ سوئی سدرن کے لیے مارچ کی قیمت 10.25 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر تھی۔اوگرا نے نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے جو فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔واضح رہے نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری پاور اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 81 پیسے کا اضافہ کیا ہے جس کے بعد اب صارفین پر پانچ ارب 20 کروڑ روپے سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔

اس سے قبل حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتیں 6.6 روپے فی لیٹر بڑھائیں تھیں جس سے مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہواہے۔اسی طرح دواؤں کی قیمتوں میں دو ماہ کی مختصر مدت میں دوسری بار اضافہ ہوا جس سے ادویات غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں۔ ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان امڈ آیا ہے۔ پٹرول اور گیس کے بعد بجلی کی قیمتیں بھی مہنگی کر دی گئیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے وعدوں اور دعوؤں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی لیکن سات ماہ بعد بھی مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آنے سے قبل عوام کو ریلیف دینے کے وعدے کرتی ہے اور یہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے بھی کیا گیا لیکن پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اشیا ء کی قیمتیں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

حکومت کے اقتدار میں آتے وقت 47 ہزار تولہ پر موجود سونے کو تو جیسے پر ہی لگ گئے اور گزشتہ روز مزید ایک ہزارروپے اضافہ کے بعد سونے کی قیمت اب 72 ہزار 2 سو روپے کے ساتھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر غریب شخص متاثر ہوتا ہے چاہے اس کے پاس اپنی سواری ہو یا نہ ہو۔ رواں ماہ کی یکم تاریخ کو پٹرول کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا گیا اور 6 روپے اضافہ کے ساتھ پٹرول کی قیمت 99 روپے 33 پیسے پر پہنچ چکی ہے۔

جس نے متوسط طبقے کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کے فوراً بعد ہی اشیا ء خوردنوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا،اسی طرح ادویات کی قیمتوں میں 100 سے 200 فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔جان بچانے والی ادویات 399 روپے تک مہنگی ہوئیں تو امراض قلب کی دوا میں بھی 317 روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ 

شوگر کو کنٹرول کرنے والی ادویات کی قیمت میں 272 سے 460 روپے تک کا اضافہ ہو گیا، اسی طرح ٹی بی کی دوائی میں بھی 204 روپے کا اضافہ ہوا۔گلے کی دوائی ایتھروسن کی قیمت 548 روپے سے بڑھا کر 921 روپے کی گئی تو دوسری طرف سر درد کی گولی ڈسپرین کی قیمت میں بھی 27 روپے کا اضافہ کیا گیا۔مہنگائی کے اس طوفان میں گیس کی قیمتوں نے بھی اڑان بھری اور اوگرا کی جانب سے ایل پی جی کی قیمتوں میں ساڑھے 3 روپے فی کلو تک کا اضافہ کر دیا گیا۔

جس کے بعد ایل پی جی کی نئی قیمت 133 روپے 50 پیسے فی کلو ہو گئی ہے اسی طرح گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 41 روپے کا اضافہ کیا جاچکا ہے۔ملک میں جس طرح سے مہنگائی بڑھتی جارہی ہے یقیناًاس کا براہ راست اثرعوام پرہی پڑرہا ہے کیونکہ جس طرح مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیاجاتا ہے اور اسے فوری لاگوکردیا جاتا ہے مگر جب عوام کی تنخواہوں کے متعلق فیصلے کئے جاتے ہیں ۔

اس حوالے سے کسی طرح بھی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تاکہ عوام کو ان کو ریلیف مل سکے، ریلیف محض کاغذی دعوؤں اور اعلانات تک محدود ہوتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام اس بوجھ کوبرداشت نہیں کرپاتے ۔ملک میں ایک تو بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے جبکہ ایک خاندان میں بمشکل تین افراد برسرِ روزگار ہوتے ہیں جن کیلئے گھر کو چلانا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور اس سے غریبوں کے بچوں کا بھی مستقبل شدید متاثر ہوجاتا ہے جو اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دینے کی بجائے گھر کی آمدن بڑھانے کیلئے انہیں کم عمر ی میں مزدوری پر لگادیتے ہیں ۔ 

ملک کے حکمران اگر ابھی سے معاشی منصوبہ بندی نہیں کرینگے تو آنے والے دن مزید بھاری پڑینگے لہٰذا عوام پر بوجھ کم کرنے کیلئے معاشی پالیسیوں کو ازسر نو مرتب کیاجائے اور جو وعدے پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل کئے تھے انہیں پورا کرنے کیلئے اپنی توانائی صرف کرے اور عوام کو اپنے انتخاب پر پچھتاوے کا موقع نہ دیں جو انہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر کیا ہے۔