|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2019

افغانستان میں امن و استحکام اور طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے تاہم بعض معاملات کے بارے میں اتفاق رائے کی کوشش کی جارہی ہے ان میں افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء، اس کے لیے ٹائم فریم اور اس دوران عبوری انتظامیہ کے بارے میں اتفاق رائے کے معاملات شامل ہیں، فریقین نے مذاکرات کے دوران بات چیت کے عمل کو خوشگوار قرار دیا اور یہ تسلسل جاری ہے ۔

مسئلے کا حل صرف نتیجہ خیز مذاکرات اور سنجیدگی سے ہی ممکن ہے جس کیلئے اس سوچ کی نفی کرنی ہوگی کہ خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا ہے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے عالمی طاقتیں خطے کو کنٹرول کرنے کیلئے افغانستان کو مورچہ بنائے بیٹھے ہیں ۔ 

سوویت یونین کی آمد کے بعد عالمی سطح پر بلاک بنائے گئے کہ کس طرح سے سوویت یونین کوخطے کے گیم سے باہر کردیا جائے لہٰذا امریکہ نے اپنے اتحادیوں سے ملکر پالیسی بنائی جس کے بعد افغانستان میں ایک دوسری حکومت قائم ہوئی مگر یہ بھی افغان عوام کیلئے قابل قبول نہیں رہی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ امن کا نعرہ لیکر افغانستان میں داخل ہوگیا اور اپنے ہی کھلاڑیوں کو شکست دینے کیلئے نئی پالیسی مرتب کی یعنی سوویت یونین کے خلاف جو جہاد ہورہا تھا اب یہ عالمی امن کیلئے خطرہ کی گھنٹی بن گئی جس کے بعد متعدد حملے یورپ اور امریکہ میں ہوئے جبکہ افغانستان اس جنگ میں تباہ ہوکر رہ گیا اور ساتھ ہی پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔

امن اتحاد میں پاکستان نے فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے پاکستان کو بھی دہشت گردی کا سامنا کرناپڑا دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہوئے جبکہ سب سے زیادہ متاثر بلوچستان اور کے پی کے ہوئے جہاں دہشت گردی کی عفریت کاسامنا تھا تو دوسری جانب مہاجرین کی بڑی تعداد کا بوجھ بھی کاندھوں پر تھا اور یہ مہاجرین آج بھی لاکھوں کی تعداد میں یہاں رہائش پذیر ہیں جن کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں ۔

البتہ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے افغان مہاجرین کو شہریت دینے کی بات کی مگر اس اعلان کے بعد بلوچستان کی حکومتی واپوزیشن جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت کی ۔ افغان مہاجرین کے متعلق بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کی پالیسی واضح ہے کہ ان کی واپسی کو یقینی بنایاجائے تاکہ بلوچستان میں بدامنی کی صورتحال سمیت معاشی، سماجی حوالے سے جو منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اس کی ایک بڑی افغان مہاجرین کی موجودگی ہے۔

وفاقی حکومت افغان مہاجرین کے متعلق جو بھی فیصلہ کرے اس میں بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت ضرور کرے پھر فیصلہ کرے۔ افغانستان کی صورتحال میں بہتری کے امکانات اس وقت پیدا ہونگے جب عالمی طاقتیں خطے میں بالادستی کی سوچ کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کرینگے جس کے آثار اب تک نظر نہیں آرہے ۔چونکہ افغانستان کے ذریعے اس پورے خطے کو کنٹرول کیاجارہا ہے جو دیگرممالک کیلئے قابل قبول نہیں۔ 

جبکہ ایک پڑوسی ملک بھارت کو عالمی طاقتوں نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے جس پر پاکستان کو تشویش ہے اور اس کااظہار پاکستان نے ہر فورم پر کیا ہے کہ کس طرح سے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی جارہی ہے اور یہاں دہشت گردی کے ذریعے ملک میں انتشار پھیلایاجارہا ہے ۔ 

گزشتہ روز امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد سے دفتر خارجہ میں مذاکرات ہوئے۔ان مذاکرات میں افغان امن عمل سمیت خطے میں امن و امان کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔امریکی نمائندہ خصوصی نے افغان مفاہمتی عمل سے متعلق اب تک ہونے والی پیشرفت سے بھی آگاہ کیا۔دفتر خارجہ سے جاری اعلامیہ کے مطابق زلمے خلیل زاد نے وزیر خارجہ کو دوحہ مذاکرات کے نتائج سے آگاہ کیا۔

زلمے خلیل زاد نے افغان حکام سے ہونے والی ملاقاتوں اور انٹرا افغان مذاکرات بارے بھی آگاہ کیا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر کہا پاکستان افغان مفاہمتی عمل میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ انٹرا افغان مذاکرات مفاہمتی عمل کا اہم ترین حصہ ہے۔پاکستان افغانستان میں امن کا خواہا ں ہے کیونکہ اس سے پاکستان میں معاشی اور انسانی ترقی میں بہتری آئے گی۔

یقیناًافغانستان میں دیرپا امن کے ذریعے ہی نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی صورتحال میں تبدیلی آئے گی مگر اس کیلئے افغان قیادت کو فیصلے کرنے پر اختیار دیا جائے، اس پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ افغانستان سے عالمی فوج کی واپسی ہے جسے مرحلہ وار مکمل کیاجائے ساتھ ہی مذاکرات کے دوران تمام فریقین کے خدشات وتحفظات کو بھی مدِ نظر رکھاجائے تب جاکر افغانستان میں نہ صرف نتیجہ خیز مذاکرات کی امید پیدا ہوگی بلکہ ساتھ ہی خطے کی صورتحال میں بہتری کے امکانات پیدا ہونگے۔