ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد عام لوگ معمولی علاج کرانے سے بھی قاصر ہوگئے ہیں ملک میں اس وقت مہنگائی کا طوفان ہے ، اشیاء خورد ونوش سے لیکر ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں جس کا بوجھ عوام برداشت نہیں کرپارہی ۔گزشتہ روز وفاقی وزیر صحت عامر کیانی نے ڈریپ کو ادویات کی قیمتوں سے متعلق اسپیشل آڈٹ کرانے کا حکم دیا۔دواؤں کی قیمتوں میں از خود اضافے کے معاملے پر وفاقی وزیر صحت نے گزشتہ حکومت کی کارکردگی سامنے لانے کا فیصلہ کیاہے۔
وزارت قومی صحت نے اسپیشل آڈٹ کے لیے آڈیٹرجنرل آف پاکستان کو خط لکھ دیاہے۔وزارت صحت کی جانب لکھے گئے مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کا سال 2013 سے 2018 تک قیمتوں کے حوالے سے اسپیشل آڈٹ کیا جائے،اس آڈٹ کا مقصد اندازہ لگانا ہے کہ قیمتوں کا تعین منصفانہ ہے یا نہیں اور ادویات کی قیمتوں کا تعین شفاف پالیسی کے مطابق اور قانون کی رو سے کیا گیا ہے یا نہیں۔
ڈریپ سے متعلق اکثر بے ضابطگیوں کے الزامات میڈیا میں سامنے آتے رہے ہیں لہذاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈریپ کو شفافیت اور کارکردگی کے اعلیٰ معیار پر چلایا جائے کیونکہ اس سے ادارے کے حوالے سے عوام میں اعتماد پیدا ہو گا۔موجودہ حکومت عوام کو سستی اور معیاری ادویات کی فراہمی ممکن بنائیگی ،وفاقی حکومت کے مطابق آڈیٹرجنرل کو ہدایت کی گئی ہے کہ ادویات کی قیمتوں کا سال 2013 سے لے کر اب تک اسپیشل آڈٹ کیا جائے۔
ادویات کی قیمتوں میں غیر قانونی اضافے کی اجازت نہیں دی جا سکتی،اس سے قبل وفاقی وزیرصحت عامر محمود کیانی نے کہا تھا کہ ادویات کی قیمتوں میں ڈالر مہنگا ہونے سے 19 فیصد اضافہ ہوا جب کہ حکومت پاکستان میں صحت کا سب سے بڑا پروگرام لا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بنیادی سہولیات کی ذمہ داری ریاست کی ہے اور آئندہ چھ ماہ میں مزید 90 لاکھ خاندانوں میں کارڈز تقسیم کریں گے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ جن کمپنیوں نے ریاست کی عملداری کو چیلنج کیا ان کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ 37 کمپنیوں کی پیداوار بھی روکی گئی ہے اور انہیں جرمانے بھی کیے گئے ہیں۔ملک میں بعض ایسی شکایات سامنے آئی ہیں کہ غیر معیاری اور جعلی ادویات بھی فروخت کی جارہی ہیں جن کے باقاعدہ خفیہ کارخانے ہیں ۔
بلوچستان کی بات کی جائے تو یہاں ڈرگ ریگولر اتھارٹی مکمل غیر فعال ہے جس کی بارہا نشاندہی کی گئی ہے کہ ڈرگ ریگولر اتھارٹی کو فعال بناتے ہوئے کوئٹہ میں جتنے بڑے میڈیکل اسٹورز ہیں وہاں ادویات کو چیک کیاجائے کیونکہ یہاں کے میڈیکل اسٹورز میں افغانستان سے بھی ادویات اسمگلنگ کے ذریعے آتی ہیں اور مارکیٹ میں کھلے عام فروخت ہوتی ہیں ۔
انسانی جانوں کی حفاظت ریاست کی پہلی ذمہ داری ہے عام لوگوں کو جو ادویات مل رہی ہیں وہ کتنے اصلی اور مفید ہیں اس کا تعین کرنا صوبائی حکام اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا کوئٹہ کے میڈیکل اسٹورز میں موجود ادویات کی چیکنگ کے ساتھ ساتھ اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے بھی اقدامات کیے جائیں ۔
کم ازکم یہاں کے شہریوں کو معیاری ادویات تو مل سکیں ۔ صوبائی حکومت نے جس طرح بلوچستان فوڈ اتھارٹی کو ہنگامی بنیادوں پر فعال بناتے ہوئے شہریوں کیلئے معیاری غذائی اجناس کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے اسی طرح ڈرگ ریگولر اتھارٹی کی فعالیت بھی ضروری ہے تاکہ انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کاکاروبار بند ہوسکے۔