گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ٹریفک حادثے میں ایک ہی خاندان کے 12 افرادجاں بحق اور17 زخمی ہوگئے۔ مستونگ کے علاقے غنجہ ڈھوری کے قریب کراچی سے کوئٹہ آنے والی وین اور مخالف سمت سے جانے والے ٹرک میں خوفناک تصادم ہوا جس میں چار بچوں اور دو خواتین سمیت گیارہ افراد موقع پر ہی جاں بحق اور اٹھارہ زخمی ہوگئے،یہ تمام افراد ویگن میں سوار تھے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی لیویز موقع پر پہنچی۔
لاشوں اور زخمیوں کو مستونگ کے نواب غوث بخش اور پھر سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا۔سول ہسپتال میں ایک اور زخمی دم توڑ گیا جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد بارہ تک پہنچ گئی۔ زخمی ہونیوالوں میں پانچ کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔
حادثہ سڑک پر بارش کے باعث پھسلن کی وجہ سے پیش آیا۔ویگن ڈرائیور تیز رفتاری کیساتھ جارہا تھا اس دوران پھسلن کی وجہ سے ویگن بے قابو ہوگئی اور سامنے سے آنیوالے ٹرک سے ٹکرا گئی۔ بلوچستان کی شاہراہوں پر حادثات معمول بن چکے ہیں گوکہ یہ حادثہ موسم کی وجہ سے ہوا مگر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شاہراہوں پر موبائل سروسز اور فوری طبی امدادکی سہولت موجود نہیں۔
2017ء میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی بورڈ نے یہ فیصلہ کیاتھا کہ بلوچستان کی بڑی شاہراہوں پر 9ایمر جنسی سنٹر قائم کیے جائیں گے۔ یہ سینٹر دانسر‘ مینازبازار ‘ قلات ‘ سوراب ‘ وڈھ ‘ کوراڑو ‘ ناگ ‘ ونگو اور ہوشاب میں قائم ہونگے، یہ تمام سنٹرز وسطی ،شمالی اور مغربی بلوچستان میں قائم کیے جائیں گے۔160ان تمام ایمر جنسی سنٹروں میں ڈاکٹر ‘ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ایمبولینس کی سروس فراہم کی جائے گی تاکہ حادثات کے مقامات پر جلد سے جلد پہنچا جاسکے اور شرح اموات کو کم سے کم کیاجاسکے۔
ا ن کا نام Centers Respons Emergencyہو گا۔این ایچ اے اپنے ہی وسائل سے یہ تمام سہولیات بلوچستان کے دوردراز شاہراہوں پر فراہم کرے گی۔ موٹر وے کے بعض حصوں میں این ایچ اے یہ سہولیات پہلے سے فراہم کررہی ہے۔موٹر وے پولیس ان ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی کرتی ہے جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں۔
تاہم بلوچستان میں ایمر جنسی سنٹروں کے قیام کا مقصد لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی اور حادثات کی روک تھام ہے۔عوامی رائے عامہ نے بارہا اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ بلوچستان کی اکثر ہائی و یز اور شاہراہیں بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں جس سے بڑی تعداد میں مسافروں کی اموات ہوتی ہیں۔
اس قسم کی سہولیات فراہم کرنا یقیناً باعث ستائش ہے مگر زیاد ہ ضروری بات یہ ہے کہ این ایچ اے ان شاہراہوں کی مرمت جنگی بنیادوں پر کرے۔آر سی ڈی ہائی وے کے بعض سیکشنز پر اس قسم کے ایمر جنسی سنٹرز کے قیام کا اعلان نہیں کیا گیا جہاں پر زیادہ حادثات رونما ہوئے اور لوگوں کی زیادہ تعداد میں جانیں ضائع ہوئیں خصوصاً نوشکی سے لے کر تفتان تک آر سی ڈی ہائی وے تباہی اور بربادی کا شکار ہے۔
دہائیوں سے اس 500کلو میٹر کے سیکشن پر کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ بلوچستان کو ہائی ویز کی تعمیر اور ترقی میں این ایچ اے نے بالکل نظر انداز کر رکھاہے۔ سالانہ بجٹ میں اس کے لئے ناکافی رقم رکھی جاتی ہے حالانکہ بلوچستان واحد اہم ترین صوبہ ہے جس کی سرحد یں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔
اور سمندری سرحدیں خلیج کی طرف بھی جاتی ہیں جہاں پر مستقبل کی تجارت کا دارومدار ہوگا۔بلوچستان کی شاہراہوں کو محفوظ بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں شاہراہوں کو محفوظ بنانے کیلئے ان کی مرمت سمیت تمام سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ بروقت ہنگامی حالات سے نمٹا جاسکے۔
بلوچستان کی خونی شاہراہیں
وقتِ اشاعت : April 18 – 2019