وفاقی کابینہ میں حالیہ ردوبدل پر وزیر اعظم عمران خان نے اسے اپنی جیت سے منسوب کیا ہے کہ کوئی بھی کپتان جیت کیلئے ٹیم میں ضروری تبدیلیاں لاتا ہے۔لیکن کیا سوال یہ پیدا نہیں ہوتا کہ جب ٹیم تشکیل دیتے وقت انتہائی محتاط انداز میں کھلاڑیوں کا چناؤ عمل میں لایا جاتا ہے تو پھراتنی جلد دوبارہ پوری کی پوری ٹیم کو تبدیل کرنا کمزور قیادت کی نشاندہی نہیں کرتی۔ اور خاص کر ہمارے حالات کو دیکھا جائے کہ ملک کس قسم کے سخت چیلنجز کا مقابلہ کررہاہے ،ایک طرف معاشی ابتر صورتحال تو دوسری جانب بدامنی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے ۔
استحکام کے بغیر معاشی اہداف کو حاصل کرنا مشکل ہے ، ہو نا تو یہ چائیے کہ دنیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے عالمی سطح پر بہترین کھلاڑی میدان میں لائے جائیں تاکہ وہ ملک کیلئے لابنگ کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ دوست بنائے جائیں تاکہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری سمیت معاشی بہتری کیلئے کردار ادا کریں۔ مگر اس جانب کوئی توجہ ماضی میں بھی نہیں دی گئی اور اب بھی سارا دارومدار قرضوں پر ہے۔
آئی ایم ایف سے آنے والے قرضوں کے بعد مہنگائی میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ بہرحال موجودہ کابینہ کی تبدیلی کو اگر کارکردگی سے جوڑا جائے تو اس وقت کپتان کی ٹیم میں ایسے کتنے کھلاڑی ہیں جو ان مشکلات سے ملک کو نکالنے کیلئے سابق وزراء سے زیادہ صلاحیتیں رکھتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں کسی کولانے اور ہٹا دینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہمارا سارا دارومدار ہی قرضوں پر ہے تو وزراء کیا منصوبہ بندی کرسکتے ہیں ۔
کس وزیر کو کیا کارکردگی دکھانی چاہئے کیا اس کیلئے انہیں ٹاسک دیا گیا تھاجس کی وجہ سے انہوں نے اداروں میں کوئی بہتری نہیں لائی اس لئے کابینہ میں ردوبدل کیا گیا ہے تو کیانئے کھلاڑی معیار پر پورا اترینگے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے قبائلی علاقوں کے دورہ کے موقع پر کہا کہ ان کا مقصد قوم کی جیت ہے اس لیے انہوں نے بطور کپتان اپنی ٹیم میں کچھ ضروری تبدیلیاں کی ہیں،ایک اچھا کپتان مسلسل اپنی ٹیم کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے اسے میچ جتانا ہوتا ہے۔
کئی مرتبہ اسے بیٹنگ آرڈر بدلنا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ اسے کسی کو نکال کے نئے کھلاڑی کو لانا پڑتا ہے۔’اسی طرح وزیر اعظم کا بھی ایک مقصد ہوتا ہے اور میرا مقصد ہے کہ میں اپنی قوم کو جتاؤں۔ اپنی قوم کو اٹھاؤں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی میں نے اپنی ٹیم میں بیٹنگ آرڈر بدلا اور ایک آدھ تبدیلی بھی کی ہے، میں آگے بھی کروں گا۔ میں سارے وزیروں سے کہنا چاہتا ہوں جو میرے ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا میں اسے تبدیل کروں گا۔
انھوں نے بطور خاص وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کو مخاطب کر کے یہ باتیں کہیں۔انھوں نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان سے کہا کہ وہ بھی اپنی ٹیم پر نظر رکھیں اور تبدیلیوں کے لیے خود کو تیار رکھیں۔اقتدار میں آنے سے قبل پی ٹی آئی نے تبدیلی کے جو وعدے اور دعوے کئے تھے اب تک ایسی کوئی تبدیلی عوام نے نہیں دیکھی البتہ انہیں اب تبدیلی کے نام سے خوف آنے لگا ہے ۔
کیونکہ اس حکومت کے آنے کے بعد مہنگائی ناگ بن عوام کو ڈس رہی ہے اور عوام اپنی عقل کو کوس رہی ہے کہ اس نے تبدیلی کا خواب دیکھا ہی کیوں تھا ۔بہرحال اب سب کی نظریں آنے والی کابینہ پر لگی ہیں کہ ان کی کارکردگی سابقہ وزراء کی کارکردگی سے کیونکر یکسر مختلف ہوگی ،وہ کچھ نیا کیا کردکھائینگے جس سے نیا پاکستان کا خواب پورا ہو ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ملک اتنی جلد چیلنجز اور بحرانات سے نہیں نکل سکتا چاہے جتنی بھی تبدیلیاں لائی جائیں ،اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک خود انحصاری پر یقین نہیں کیا جائے گا ملکی وسائل اور پیداوار پر سرمایہ کاری نہیں کی جائے گی صورتحال اسی طرح ہی رہے گی ۔ کرپشن اور اقرباء پروری سے جان چھڑانے کے بعد ہی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے کابینہ کی تبدیلی سے نہیں۔
کابینہ میں تبدیلی ، ملک میں کب آئے گی؟
وقتِ اشاعت : April 20 – 2019