|

وقتِ اشاعت :   April 23 – 2019

عمران خان ایران کے دورہ پر ہیں انہوں نے ایرانی صدر سے ملاقات کی ، سرحدی معاملات اور امن وامان کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی گئی ، وزیراعظم عمران خان نے دونوں ملکوں کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے پر بات کی اور ساتھ ہی دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ملکر کام کرنے پرزور دیا۔ 

یقیناًخطے میں اس وقت دیرپا امن کی اشد ضرورت ہے اس کے علاوہ پڑوسی ممالک سے تعلقات کو مضبوط بنانے اور تجارتی معاملات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پاکستان آنے کی دعوت قبول کرتے ہوئے کہا کہ پاک ایران تعلقات پر کوئی تیسرا ملک اثر انداز نہیں ہو سکتا، سرحدوں پر سیکیورٹی کے لیے مشترکہ فورس بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ہم دونوں ممالک کے ساتھ تجارت کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان کمرشل سرگرمیوں کا فروغ چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جوائنٹ ریپڈری ایکشن فورس بنائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ایران 10 گنا زیادہ بجلی پاکستان ایکسپورٹ کرنے کو تیار ہے جب کہ آئل اور گیس سے متعلق بھی پاکستان کی ضروریات پوری کرنے کو تیار ہیں۔

ایرانی صدر کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان کو بجلی، تیل اور گیس فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی ہے جسے عملی جامہ پہنانے میں اب کوئی تساہل نہیں ہو نا چائیے کیونکہ توانائی کے بغیر ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور ایران جب ہمیں مناسب نرخ پر بجلی اور گیس فراہم کرنے کو تیار ہے تو ہمیں اس پیشکش سے فائدہ اٹھانا چائیے۔ 

اس سے ہمارے دو طرفہ تعلقات پر خوشگوار اثرات پڑیں گے اوریہ بھی ضروری ہے کہ ان تعلقات کوصرف سرکاری سطح تک محدود نہیں رکھا جائے بلکہ ان کو عوامی سطح تک وسعت دی جائے تاکہ دو طرفہ تجارت اور آمد و رفت میں اضافہ ہو۔ایران ‘ پاکستان گیس پائپ لائن کو جلد مکمل کیا جائے کیونکہ ماضی میں اس اہم منصوبہ کو مکمل طورپرنظرانداز کیا گیا ۔ 

اسی طرح ایران کی خواہش کے باوجود بھی کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے لائن کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کا عمل ابھی تک شروع نہیں ہوا جس کی وجہ سے پاکستان ‘ ایران تجارت یا پاکستان اور ترکی کے درمیان تجارت میں توسیع نہ ہو سکی۔ کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے سیکشن واحد ذریعہ ہے جو زمینی راستے سے پاکستان کو یورپ سے ملائے گا اور اس طرح پاکستان ‘ یورپی ممالک سے زمینی اور ریل کے ذریعے بڑے پیمانے پر تجارت کر سکے گا۔ 

ماضی کے حکمران ملک کی مجموعی ترقی کے دعوے کرتے دکھائی دیتے تھے مگر اس نوعیت کے اہم منصوبے ان کی نظر سے نہیں گزرے کہ کم سے کم لاگت میں پاکستان کے دور دراز علاقوں سے تجارتی سامان دنیا کے ملکوں کو ریل کے ذریعے بھیجا جا سکے۔ ایک دوسرا مسئلہ ایران سے بجلی کی خریداری ہے ایران 74ہزار میگا واٹ بجلی پید اکررہا ہے اور دنیا کے آٹھ پڑوسی ممالک کو بجلی فروخت کررہا ہے پاکستان بھی مکران کے لئے ایران سے محدود پیمانے پر بجلی خرید رہا ہے۔

اب یہ پتہ نہیں کہ پاکستان ایران سے بڑے پیمانے پربجلی کیوں نہیں خرید رہا حالانکہ سستی بجلی خریدنے کے بعد ملک سے لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ سرے سے ختم ہوجائے گا اور بڑے بجلی گھر اور صنعتی زونز قائم ہونگے جس سے معاشی حوالے سے بڑی تبدیلیاں آئینگی اور عوام کو بڑے پیمانے پر روزگار ملے گا۔

دوسری جانب گوادر اور چاہ بہار دونوں بندر گاہوں کی ترقی کے رفتار میں یکسانیت پیدا کی جائے تاکہ دونوں ایک ساتھ ترقی کرسکیں ۔چاہ بہار میں اس وقت دنیا کے ممالک 150ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی بلوچستان کو بھی اسی لگن اور تیز رفتاری سے ترقی دی جائے جیسا کہ ایرانی بلوچستان میں ہورہا ہے۔ لاکھوں بلوچ اب ایرانی بلوچستان کا رخ کررہے ہیں جہاں پر روزگار کے زیادہ اچھے مواقع ہیں۔

امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان سابقہ حکومتوں کے برعکس ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کیلئے بھر پور کردار ادا کریں گے ، اس سے پورے ملک میں تبدیلی آئے گی اور معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومے گا جس سے بے روزگاری میں کمی آئے گی اور خوشحالی کا نیا سفر شروع ہوگا۔