اسلام آباد: جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اختلافات کے باوجود جمہوریت کی گاڑی چلنی چاہیئے۔ حکومت کو گرانے کی کوشش کی کی گئی تو ہم اسے سنبھالنے کی کوشش کریں گے
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایک سال کے بعد صرف 4 حلقوں میں دھاندلی کی نشاندہی کیوں کی گئی ہے، تسلیم کیا جائے کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات میں مکمل بے بس رہا، جب دھاندلی کی بات ہوگی تو ملک کے 4 حلقوں کے نہیں بلکہ تمام الیکشن کی بات کرنا ہوگی، اور اس بات کی بھی نشاندہی کرنا ہوگی کہ انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے والی اصل قوت کون سی ہے اور ان قوتوں کے بارے میں بات ہوگی جنہوں نے پاکستان کی سیاست پر شب خون مارا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو ایک سنجیدہ سیاست کی ضرورت ہے، کل تک طالبان کی حمایت کی جاتی تھی آج ذرا سے دباؤ پر ان کی مخالفت کی جارہی ہے۔ کل تک سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ کھڑے تھے آج ان کے خلاف علم جہاد بلند کررہے ہیں۔ اس طرح کے پینترے تبدیل کرنے والی سیاست عوام کو مطمئن نہیں کرسکتی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے حکومت کے ساتھ چند معاملات پر اختلافات ہیں جنہیں انہوں نے کبھی بھی پوشیدہ نہیں رکھا لیکن اختلافات کے باوجود جمہوریت کی گاڑی چلنی چاہیئے۔ حکومت کو گرانے کی کوشش کی کی گئی تو ہم اسے سنبھالنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جہاں چند پہلوؤں میں مثبت پیش رفت ہورہی ہے وہیں انتظامی امور کے حوالے سے عوام کی شکایات بدستور موجود ہے۔
جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ حکومت میں شامل کسی بھی جماعت کا وزارتیں لینا بڑی بات نہیں لیکن نظریاتی اختلافات سامنے آئیں تو وزارتوں کا معاملہ ثانوی ہوجاتا ہے۔ ہم نے حکومت کے ساتھ شمولیت نظریات کی ترجیح کی بنیاد پر کی ہے، ہم نے اپنی بات حکومت کے سامنے رکھ دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے طالبان سے مزاکرات سے لاتعلقی کا اظہار کرکے یہ پیغام دیا کہ ہ نہیں سمجھتے کہ قبائل کا معاملہ ہو اور قبائل کو نظر انداز کرکے اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے، ایک باقاعدہ قبائلی جرگہ آج بھی موجود ہے اور وہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔