گزشتہ پینسٹھ سالوں سے سوئی اور پندرہ سالوں سے سیندک پروجیکٹ کی صورت میں بلوچستان کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے۔ بلوچستان کے عوام کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ سیندک کے معاملے میں بلوچستا ن کو صرف ڈھائی فیصد کی رائلٹی پرٹرخا یا گیا۔سوئی گیس کی آمدنی میں سے بھی وفاق بلوچستان کے اربوں روپوں کا مقروض ہے ۔
ملکی اورغیرملکی کمپنیوں نے ان منصوبوں سے اربوں ڈالر کمانے کے بعد بھی اپنی کارپوریٹ ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ اتنے بڑے سونے اور تانبے کے پلانٹ کے بعد بھی چاغی اور خصوصی طورپر سیندک کے گردونواح میں کسی قسم کی تبدیلی کے آثار نظر نہیں آتے جس سے وہاں کے مقامی لوگوں کو فائدہ ملتا۔غیرملکی کمپنی نے وسائل کو بھر پور طریقے سے لوٹا یہاں تک کہ سینکڑوں کارکن باہر سے لائے گئے اور مقامی افراد کو روزگار کے حق سے بھی محروم رکھا گیا۔
سینکڑوں کارکنوں کوباہر سے سیندک لانا ایک معاشی جرم ہے جس میں سابقہ دور کی حکومت بھی برابر کی شریک ہے کیونکہ اس نے کمپنی کواپنی من مانی کرنے کی اجازت دے رکھی تھی کہ وہ جو چاہے کرے، چند ایک پاکستانی کارکن سیندک میں کام کررہے ہیں ان کو اس وقت کے ڈی سی نے بھرتی کیا تھا اس کے علاوہ پاکستان بھر سے اہل کارکنوں کو ملازمتیں دیں تھیں لیکن کمپنی نے ان کی اکثریت کو ملازمت سے بر طرف کردیا اور ان کی جگہ پر اپنے کارکن لائے۔
اس قسم کے عوام دشمن فیصلے اور معاہدے کرنے کی وجہ سے بلوچستان میں پسماندگی نے جنم لیااور انہی اسباب نے ناراضی اوردوریوں کو جنم دیا۔ سوئی گیس سے بلوچستان کو کیا ملا، سیندک نے بلوچستان کو کیا دیا، گوادر پورٹ بلوچستان کو کیا دے گا اور ریکوڈک کو بھی کیا اسی طرح بیچ کھایا جائے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جوبلوچ عوام کے ذہنوں کو بے چین کیے رکھتا ہے۔
ان تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کے سیاستدانوں کو اب کسی بھی معاملے میں مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ بلوچستان کے وسائل کا تحفظ کرتے ہوئے صوبہ کے مفادات کو ترجیح دیں ۔ماضی سامنے ہے کہ کس طرح 160بلوچستان کے وسائل کا سودا وفاق میں بیٹھے حکمرانوں نے اپنے مفادات کے تحت کیا جس سے بلوچستان کے عوام کی پسماندگی اور درماندگی کاجائزہ لیاجاسکتا ہے ۔
انہی کالموں میں بارہا یہی تجویز دی جاتی رہی ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت سیندک پروجیکٹ خودچلائے کیونکہ اس کیلئے پاکستان میں کارکن موجود ہیں۔جب سیندک پلانٹ مکمل ہوا تھا تو دو ماہ کی ٹرائل پیداوار پاکستانی کارکنوں نے حاصل کی تھی،جسے بین الاقوامی منڈی میں پچاس کروڑ روپے میں فروخت بھی کیا گیا۔
بعدازاں نواز شریف اور چوہدری نثار نے اپنے دور حکومت میں سیندک کا دورہ کیا۔چینیوں کو بلوچستان سے بے دخل کرنے کے آرڈر نکالے ،اس طرح سونے اور تانبے کے کان کو وزیراعظم پاکستان کے حکم سے بند کردیا گیا جو بلوچستان کے عوام کے معاشی قتل کے مترادف تھا۔ وفاق کی یہ وہ ناروا پالیسی ہے کہ بلوچستان کو پسماندہ ‘ غریب اور بھوکا رکھا جائے، اس کے ہر ایک ترقیاتی عمل میں رخنہ ڈالا جائے ، گوادر اور کچھی کینال اس کی واضح مثالیں ہیں۔
پھر پرویزمشرف نے تو بلوچستان والوں سے پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کی اور ففٹی ففٹی کی بنیاد پر سیندک کا سودا چین اور اسلام آباد کے درمیان کیا۔ اب صوبائی حکومت کو چائیے کہ اچھے اور ایماندار افسران پر مشتمل ایک ٹیم بنائی جائے جو معاشی منصوبوں کی نگرانی کرے، ایسی ہی ٹیم سیندک کوچلائے اوراس بات کو یقینی بنائے کہ سیندک سے حاصل ہونے والی آمدنی ، بشمول کارپوریٹ ٹیکس کے حکومت بلوچستان کے حوالے کیے جائیں۔
اگر یہ اسکیم کامیاب ہوجائے تو ریکوڈک اور سیندک پروجیکٹ کو ضم کیاجائے اور حکومت بلوچستان سیندک پلانٹ کو توسیع دے تاکہ اربوں ڈالر کی آمدنی صرف اور صرف بلوچستان کی حکومت اور عوام کے لئے ہو۔
وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ بلوچستان کے عوام کے وسائل پر ان کے حق کو تسلیم کرے ، اب تک بلوچستان کے ساتھ جو رویہ رکھا گیا ہے اسے تبدیل کیا جائے۔موجودہ صوبائی حکومت ماضی کے ادوار کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کے وسیع تر مفاد میں اپنے صوبے کے حقوق کے لیے بلادھڑک سخت موقف اپنائے، سیندک پروجیکٹ خود چلائے اور سارا منافع خود رکھے، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم سے کم بلوچستان کو آدھا حصہ تو دلوائیں، نہیں تو سیندک ذخائرکا خاتمہ زیادہ دور نہیں اور ہم سیندک کا مالک ہوتے ہوئے یونہی صرف ڈھائی فیصد رائلٹی پراسلام آباد کے احسان مند رہیں گے۔
اوراگر اس سلسلے کو تبدیل نہیں کرسکتے تو ہمیں اس بات پر رونا نہیں چاہئے کہ ہم مالی بحران کا شکار ہیں۔گزشتہ پالیسیوں کی وجہ سے ہی آج ہم اس نہج پر پہنچے ہیں، ترقیاتی منصوبوں میں بلوچستان کو کچھ نہیں ملا بجائے اس طرح کے گلے شکوے کے ہمیں اپنے قانونی اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے منافع بخش منصوبوں کو اپنے ہاتھ میں لینا چائیے اورجو حق وفاق کا بنتا ہے اسے دیا جائے مگر بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کو ہر صورت روکاجائے۔
یہاں کے عوام کا جائز مقام ان کو دیاجائے جس طرح ملک کے دیگر صوبوں میں چلنے والے بڑے بڑے منصوبوں سے وہ فائدہ اٹھارہے ہیں تو ہم کیوں نہیں اٹھاسکتے۔ لہٰذا بلوچستان کو مالی مشکلات سے نکالنے اور یہاں ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے ہمیں ٹھوس مؤقف اپنانا چائیے ،یہی بلوچستان کے وسیع ترمفادمیں ہے۔
بلوچستان کے وسائل ہی صوبہ کی ترقی کیلئے کافی ہیں
وقتِ اشاعت : April 24 – 2019