وزیرمملکت برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفراللہ مرزا نے کہاہے کہ قومی ادارہ صحت کو ہرممکن وسائل فراہم کرینگے۔وزیر مملکت برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے یہ بات آج قومی ادارہ صحت اسلام آباد کے دورے کے موقع پر کہی۔اس موقع پر ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔
صحت کے شعبے کی ترقی کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی ادارہ صحت کی اہمیت کے پیش نظر اس ادارے کو ہر ممکن وسائل فراہم کریں گے۔ این آئی ایچ صحت کے شعبے میں قومی امنگوں کے مطابق خدمات انجام دے رہا ہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ قومی ادارہ صحت میں اصلاحات کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے تاکہ اس اہم ادارے کو جدید تقاضوں کے مطابق چلایا جائے۔
تحقیقی اور ویکسین کی تیاری کے کام کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ اس سے قبل بھی صحت کے شعبے میں بہتری اور اصلاحات لانے کے دعوے کئے گئے ہیں مگر نتائج ہمارے سامنے ہیں۔صحت کے شعبہ سے عوام کا اعتماد اٹھتاجارہا ہے خاص کر سرکاری اسپتالوں کی جو صورتحال ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو عوام شدید مایوس دکھائی دیتے ہیں نان پروفیشنل ڈاکٹروں کی تعیناتی،غلط علاج کی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
پہلے عوام کو عطائی ڈاکٹروں سے خوف آتا تھا مگر اب سرکاری اسپتالوں سے بھی عوام کا اعتماد اٹھتاجارہا ہے۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ہمارے یہاں بہترین ماہرین کی کوئی کمی نہیں، انتہائی پروفیشنل ڈاکٹرز موجود ہیں مگر بدقسمتی سے وہ زیادہ توجہ نجی اسپتالوں کو دیتے ہیں جبکہ سرکاری اسپتالوں میں ان کی ڈیوٹی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس کے علاوہ آئے دن کا احتجاج بھی عوام کیلئے درد سر بن چکا ہے ان معاملات سے نمٹنے کیلئے قانون سازی وقت کی عین ضرورت ہے تاکہ عوام کو بہترین علاج معالجے کی سہولیات میسر ہوسکیں۔بارہا بلوچستان جیسے پسماندہ صوبہ کی جانب صوبائی ووفاقی حکومت کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ یہاں پر جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے کا کاروبار زور پکڑتا جارہا ہے،ہر گلی اور ہر سڑک پر درجنوں میڈیکل اسٹور ادویات فروخت کررہے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ان میڈیکل اسٹوروں کو اتنا منافع تونہیں ہوگا کہ وہ کمپنی کی کمیشن پر گزارہ کریں۔ان میں سے بڑی تعداد میں میڈیکل اسٹور جعلی ادویات فروخت کرنے میں ملوث ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے ایسی کوئی خبر نہیں ملی کہ محکمہ صحت کے حکام نے کسی میڈیکل اسٹور پر چھاپہ مارا اور وہاں سے جعلی ادویات جمع کیں اور ان کو لیب ٹیسٹ کے لئے بھیجا۔
میڈیکل اسٹور والوں کو پابند کیا جائے کہ وہ عام ایجنٹ سے ادویات نہیں خریدیں بلکہ کمپنی اور اس کے ایجنٹ سے خریدیں تاکہ عوام کویہ تسلی ہو کہ جو ادویات وہ استعمال کرر ہے ہیں وہ اصلی ہیں، نقلی نہیں۔ یہی طریقہ کار پورے بلوچستان کے لئے نافذ ہو۔ تمام میڈیکل اسٹوروں پر یکساں قوانین لاگو ہوں۔
پولیس اور محکمہ صحت کو یہ اختیارات دیئے جائیں جیسا کہ گزشتہ وفاقی حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو دیئے تھے کہ وہ چھاپہ مار سکتا ہے پولیس اور محکمہ صحت کے افسران کی مدد کے لئے ایک جدید لیب بنائی جائے جہاں پر ادویات کو ٹیسٹ کیا جائے۔
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے اپنی ایک رپورٹ میں جعلی ادویات کو انسانی زندگیوں کیلئے بڑا خطرہ قرار دیاہے،جس میں تین لاکھ سے زائد بچوں کی موت کی وجہ غلط ادویات کے استعمال کوقرار دیا۔رپورٹ میں تین اقسام کی جان لیوا ادویات کی روک تھام کی سفارش کی گئی ہے۔ پہلی وہ کمپنیاں جو سوچ سمجھ کر غلط ادویات لوگوں تک پہنچاتی ہیں۔
دوسری وہ ادویات جن میں مقدار سے زیادہ اور کم ڈرگز کا استعمال خطرناک ہو جاتا ہے، تیسری وہ ادویات جن کا نہ ہی کوئی لائسنس ہوتا ہے اورنہ ہی کسی متعلقہ ادارے سے منظور شدہ ہوتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی ٹیم کے ڈاکٹر جیول بیرمین کاکہنا ہے کہ دس سال پہلے 75 ملکوں میں 29 ایسی ادویات کا پتہ لگایا گیا تھا جو جان لیوا ہو سکتی تھیں اور دس سالوں بعد 113 ممالک میں 95 غلط ادویات کی موجودگی کی رپورٹ حاصل کی گئی ہے۔
اس صورتحال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اہم کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ عوام کی زندگیوں سے کھیلنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور اس کے ساتھ ہی سخت قوانین بھی بنائے جائیں تاکہ سرکاری اسپتالوں میں بھی بہتری آسکے۔