|

وقتِ اشاعت :   April 30 – 2019

گزشتہ روزسیندک پروجیکٹ کے ملازمین نے تنخواہوں میں اضافے اوردیگرمطالبات کے حق میں احتجاج کرکے کام بندکردیا۔ملازمین کا کہنا تھا کہ مہنگائی دوسوفیصدبڑھنے کے بعد بھی پروجیکٹ انتظامیہ نے سالانہ 6 سے 8 ڈالر یعنی 2.8 فیصدتا3 فیصدتنخواہوں میں اضافہ کیا ہے جوسراسر زیادتی ہے، ملازمین کے مطابق انہیں دھونس اور دھمکیاں بھی دی گئیں مگر اس کے باوجود ملازمین نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجاََ پروجیکٹ پر کام بند کردیا۔

آمدہ اطلاعات کے مطابق ایم ڈی سیندک پروجیکٹ اور ملازمین کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور ان کے مطالبات کو تسلیم کیا گیا ہے یعنی فی الوقت تو معاملہ حل ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ سیندک پروجیکٹ پر پاکستان اور چینی کمپنیاں سونے اورتانبہ کے ذخائرپرگزشتہ کئی سالوں سے کام کررہی ہیں جس سے دونوں ملکوں خصوصاًچائنیزکمپنیاں اربوں ڈالرکما چکی ہیں اور مزید کمارہی ہیں مگر کمپنی میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کے معاشی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جبکہ پروجیکٹ میں کام کے دوران سیفٹی انتظامات ناقص ہیں اورصحت کی بہترسہولیات بھی فراہم نہیں کی جارہیں جس کے باعث حادثات کی صورت میں ملازمین جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اس کے علاوہ ملازمین کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں۔ یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اربوں روپے کی پیداوار دینے والے اہم منصوبے کے ملازمین کو کوئی بھی سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں جبکہ 2 سالوں سے تنخواہوں میں اضافہ، میڈیکل الاؤنس اور بونس سمیت چھٹیاں تک نہیں دی گئی ہیں۔

یہ انتہائی ظالمانہ اقدامات ہیں، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اربوں روپے منافع کمانے والی کمپنی علاقے کی ترقی کیلئے وسائل فراہم کرتی مگر افسوس کہ سیندک ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک اپنایاجارہا ہے۔ پھر کس طرح سے یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ کمپنی بلوچستان کے مفادات کا تحفظ کرے گی۔

بارہا انہی کالموں اور تحریروں کے ذریعے تجویز پیش کی جاتی رہی ہے کہ اچھے اور ایماندار افسران پر مشتمل ایک ٹیم بنائی جائے جو معاشی منصوبوں کی نگرانی کرے اور ایسی ہی ایک ٹیم سیندک کو چلائے اوراس بات کو یقینی بنائے کہ سیندک سے حاصل ہونے والی آمدنی‘ بشمول کارپوریٹ ٹیکس کے حکومت بلوچستان کے حوالے کیے جائیں۔

اگر یہ اسکیم کامیاب ہوجائے تو ریکوڈک اور سیندک پروجیکٹ کو ضم کیاجائے اور حکومت بلوچستان سیندک پلانٹ کو توسیع دے تاکہ اربوں ڈالر کی آمدنی صرف اور صرف بلوچستان کی حکومت اور عوام کے لئے ہو۔ وفاقی حکومت پندرہ سال سے زائد عرصہ سے اس کی آمدنی پر قابض ہے اور چینی کمپنی بھی بے دردی سے وسائل کو لوٹ رہا ہے اور اپنی کارپوریٹ ذمہ داریاں بھی پوری نہیں کررہا۔ہماری وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ چین سے دوستی کی خاطر بلوچستان کے عوام کے وسائل قربان نہ کریں۔

صوبائی حکومت کو چائیے کہ صوبے کے حقوق کے لیے بلادھڑک سخت موقف اپنائے، سیندک معاہدہ منسوخ کرے اور اسے خود چلائے اور سارا منافع خود رکھیں، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو کم سے کم بلوچستان کا حصہ تو بڑھائیں ڈھائی فیصد کی رائلٹی تو خیرات جیسا لگتا ہے جسے حاتم طائی کی قبر پر لات مارکر بلوچستان کو دیا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ موجودہ صوبائی حکومت ایک اور مہربانی کرکے بلوچستان کے عوام کو یہ بھی بتا دے کہ سیندک پروجیکٹ کے معاہدے پر کس نے دستخط کیے ہیں جس میں بلوچستان کا حصہ صرف ڈھائی فیصدرکھا گیا ہے، اس بلوچستان دشمن شخص کا نام ضرور سامنے آنا چائیے۔

بلوچستان حکومت حالیہ احتجاج سے ہی اندازہ لگائے کہ کس طرح سے کمپنی صرف اپنے مفادات کیلئے یہاں کام کررہی ہے اور ہمارے مزدوروں کو کوئی سہولت فراہم نہیں کررہی۔اگر صوبائی حکومت خود اس منصوبہ کو چلائے تو اس سے نہ صرف مزدوروں کا بھلا ہوگا بلکہ صوبائی حکومت اربوں روپے منافع خود کمائے گی۔

بہرحال ضرورت اس امر کی ہے صوبائی حکومت تمام مصلحتوں سے اوپر اٹھ کرسیندک کے معاملات میں مداخلت کرے اور اس سے اب تک حاصل ہونے والی پیداوار کی مکمل معلومات حاصل کرے کہ اب تک چینی کمپنی نے کتنا منافع کمایا اورحکومت پاکستان کا حصہ کتنا رہا اور بلوچستان جو کہ سیندک کا مالک ہے اسے کیا حاصل ہوا،یہی ذمہ داری ہمارے حکام کی ہے۔