|

وقتِ اشاعت :   May 1 – 2019

کوئٹہ : بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے ایک مرتبہ پھر پی ایس ڈی پی کو ایوان میں زیر بحث لاتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کئے جانے پر حکومت کی کارکردگی کو ہدف تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پی ایس ڈی پی صرف حکومتی اراکین کے لئے نہیں ہے۔

حکومت نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ہم احتجاج کی آخری حد تک جائیں گے اور اسمبلی کے اندر اور باہر عوامی جنگ ہوگی،، سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات ناپید 55ارب روپے لیپس ہونے جارہے ہیں۔اس موقع پر ایوان میں شدید شور شرابہ ہوتا رہا اور حکومتی وا پوزیشن اراکین کے بیک وقت بولنے سے ایوان میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دی۔

منگل کے روزپینل آف چیئرمین قادر علی نائل کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے کہا کہ تین اپریل کو ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کے نام سے دس کروڑ روپے حلقوں کے لئے جاری ہوئے لیکن پورا مہینہ گزرنے کے باوجود گراؤنڈ پر کچھ بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی 2018-19ء لیپس ہونے جارہی ہے بلوچستا ن کے لوگوں کو82ارب روپے سے محروم کرنے کے ذمہ دار کون ہیں بتایا جائے۔انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے لئے بنائی جانے والے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے بھی اپوزیشن کو لاعلم رکھا گیا ہے حکومت بے شک ہم پر دفعا ت لگا کر ہمیں جیلوں میں ڈالے لیکن ہمارے حلقوں کے عوام کو سزا نہ دے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں۔

کہ اگر حکومت نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ہم احتجاج کی آخری حد تک جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ وحدت کالونی میں 450سرکاری مکانات ہیں جہاں ملازمین رہائش پذیر ہیں انہیں مکانات خالی کرنے کے لئے نوٹسز دیئے گئے ہیں اور بتایاگیا ہے کہ نئے پاکستان سکیم کے تحت فلیٹس بنا کر دیئے جائیں گے حکومت مذکورہ رہائشی مکانات کوپہلے ہی پانی، بجلی، گیس اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کرپائی تو پانچ ہزار رہائشی مکانات کو سہولیات کہاں سے فراہم کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پانچ ہزار نہیں 50ہزار فیلٹس تعمیر کرے ہم اس کا خیر مقدم کریں گے لیکن پہلے سے رہائش پذیر لوگوں کو وہاں سے نکال کر گھروں کو مسمار کرنا کہاں کا انصاف ہے کوئٹہ کے متعدد علاقوں میں سرکار کی ایکڑوں اراضی خالی پڑی ہے بہتر ہے کہ لوگوں کو مالکانہ حقوق دے کر ان کے گھر مسمار کرنے کی بجائے خالی زمینوں پر فیلٹس تعمیر کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ سیندک پروجیکٹ پر کام کرنے والے لوکل ملازمین کو مذکورہ کمپنی بین الاقوامی قوانین کے تحت تنخوائیں ادا کرنے کی پابند ہے تاہم گزشتہ کئی دنوں سے وہاں لوکل ملازمین تنخواہوں میں اضافہ اور دیگر مطالبات کے لیے سراپا احتجاج ہیں جبکہ دوسری جانب دیگر ممالک سے آئے ہوئے کنٹلٹنٹس اور دیگر غیر مقامی ملازمین کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں جو سراسرانصافی ہے۔

مذکورہ کمپنی کومقامی اور غیر مقامی ملازمین کو یکساں تنخواہوں کی ادائیگی کا پابند بنایا جائے اور سیندک کے لئے جو کمیٹی ایوان میں تشکیل دی گئی تھی اس کو ہدایت جاری کی جائے وہ اس معاملے کی تحقیقات کرکے رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوقانی نے کہا کہ اپوزیشن جماعتیں شروع دن سے ایوان میں پی ایس ڈی پی کواس لئے زیر بحث لاتی ر ہیں کہ یہ پی ایس ڈی پی صرف حکومتی اراکین کے لئے نہیں ہے۔

ہماری بار بار نشاندہی کے باوجود اپوزیشن اراکین کے حلقوں کو ترقیاتی عمل میں مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے حکومت نے صوبے کی آدھی آبادی کو ترقی کے عمل میں شامل نہیں کیا اور اگر آئندہ مالی کی پی ایس ڈی پی میں بھی اپوزیشن کے حلقوں کو نظر انداز کیا گیا تو میں حلفاً کہتا ہوں کہ پھر یہ ایوان نہیں چلے گا اور پھر اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر عوامی جنگ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں صحت کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ ہے اور حکومت ہر سال اربوں روپے کی رقم صحت کے شعبے پر خرچ کرتی ہے۔

مگر اس کے باوجود جونیئر ڈاکٹرز کو اہم پوسٹوں پر تعینات کیا گیا ہے اور حالت یہ ہے کہ بی ایم سی ہسپتال میں مریضوں کو لیجانے کے لئے سٹریچر تک نہیں اور مریض کوچادر پر ڈال کر دھکیل کر وارڈ تک لیجایا جاتا ہے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے میں حکومتی اراکین کو دعوت دیتا ہوں کہ اگر وہ یہ ویڈیو دیکھنا چاہیں تو میں انہیں یہ ویڈیو دکھا سکتا ہوں اس پر حکومتی رکن نے کہا کہ وہ ویڈیو دیکھ چکے ہیں تو اس پر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ آپ کو آج اسمبلی میں ماتم کرنا چاہئے تھا۔

انہوں نے کہا کہ بی ایم سی کی طرح شیخ زید ہسپتال میں بھی سہولیات کی کمی ہے گزشتہ روز زہر خورانی کے لائے گئے مریض کے لئے ایک سرنج تک نہیں تھا اور انہیں سرنج بازار سے لانے کو کہا گیا جس سے حکومتی دعوؤں کی نفی ہوتی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گزشتہ اجلاسوں میں پی ایس ڈی پی سے متعلق تفصیلات مانگی تھیں جس پر سپیکر آفس سے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کو ایک مراسلہ بھی بھیجا گیا جس میں انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ خرچ ہونے والے فنڈز کی ضلع وار تفصیل دے لیکن بظاہر یہی لگ رہا ہے۔

کہ محکمے نے وہ مراسلہ ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا ہے انہوں نے کہا کہ حکومت نے تو ہمیں تفصیلات نہیں دیں لیکن ہمارے بھی ذرائع ہیں جن سے ہمیں فہرست مل گئی ہے اور اس کے مطابق رواں مالی سال کے کل 88ارب کی پی ایس ڈی پی میں اب تک صرف33ارب روپے ریلیز ہوئے ہیں اور 45سے55ارب روپے لیپس ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں 32فیصد بیلہ اور43فیصد جھل مگسی میں آن گوئنگ جبکہ نئی اسکیمات کی مد میں بیلہ، جعفر آباد اورجھل مگسی کو 40فیصد تک فنڈز ریلیز ہوئے ہیں جو عدالتی حکم کی خلاف ورزی اور تاریخی جرم ہے انہوں نے کہا کہ ہم جھل مگسی، بیلہ یا جعفر آباد کی ترقی کے خلاف نہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ تمام صوبے کو یکساں اہمیت اور ترقی دیں انہوں نے کہاکہ خاراج، واشک اور مکران کے شہزادے روزگار نہ ہونے کی وجہ سے دیگر ممالک میں برتن دھونے اور مشقت کرنے پر مجبور ہیں بندرعباس میں گزشتہ روز بھی خاران کے 16کے قریب لوگوں کو پکڑا گیا ہے۔

جو روزگار کے لئے بیرون ملک جارہے تھے انہوں نے کہا کہ ایوان میں پی ایس ڈی پی پر جب میں نے پہلی بار بات کی اور طویل بحث ہوئی تب خود وزیراعلیٰ نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ پی ایس ڈی پی سے متعلق فارمولا بنائیں گے اور اسی فارمولے کے تحت تمام علاقوں میں یکساں بنیادوں پر فنڈز تقسیم کئے جائیں گے لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اس موقع پر جب انہوں نے حکومت کے لئے نالائقی کے الفاظ استعمال کئے تو وزیراطلاعات ظہور بلیدی نے اس پر احتجاج کیا تاہم ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت کی غلط پالیسیوں، نالائقیوں کی وجہ سے آج ہسپتالوں میں اسٹریچرتک میسر نہیں جبکہ 55ارب روپے لیپس ہونے جارہے ہیں۔

اگر حکومت میں قابلیت اور صلاحیت ہوتی تو آج صوبے میں ا من وامان کی صورتحال بہترہوتی گزشتہ 11مہینوں سے پی ایس ڈی پی عدالت میں زیر سماعت نہ ہوتی اور آج بلوچستان کے نوجوان ملازمت کے حصول کے لئے دیگر ممالک کی جیلوں میں نہیں سڑتے اس موقع پر ایک بار پھر ایوان میں شدید شور شرابہ ہوا اور چیئر مین کی بار بار تاکید کے باوجود اراکین بیک وقت بولتے رہے۔پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ یہ نہ کہیں کہ پی ایس ڈی پی سابق حکومت نے بنائی تھی انہیں ماننا چاہئے کہ پی ایس ڈی پی ان کی پارٹی نے بنائی۔

وزراء اور اراکین اسمبلی ہمیں اندرونی کہانیاں سناتے ہیں حکومت ہمیں بتائے کہ پی ایس ڈی پی کے تین میں سے کتنے کوارٹرز کے پیسے وفاق سے آئے ہیں اور کتنے واپس جائیں گے۔ انہوں نے ایک اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک بار پھر لیویز نظام کو ختم کرنے جارہی ہے یہ سازش ہے جسے ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے لیویز کے زیرا نتظام علاقوں میں امن وامان کی صورتحال زیادہ بہتر ہے لیویز کاخاتمہ ہمیں قبول نہیں انہوں نے کاکہ حکومت خلائی مخلوق کے کہنے پر چل رہی ہے عوام کے نمائندے عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔

ان کے بارے میں سب کو پتہ ہے کہ یہ کس کے نمائندے ہیں جس پر وزیر خزانہ ظہور بلیدی اور تحریک انصاف کے مبین خلجی نے شدید احتجاج کیا۔ اس موقع پرحکومتی اور اپوزیشن اراکین میں شدید شور شرابہ ہوتا رہا اور حکومتی وا پوزیشن اراکین کے بیک وقت بولنے سے ایوان میں کان پڑی آواز بھی سنائی نہ دی۔ دریں اثناء صوبائی وزیر خزانہ واطلاعات ظہور بلیدی نے کہا ہے۔

کہ ہمیں حکومت کا حق اپوزیشن نے نہیں بلوچستان کے عوام نے دیا ہے،پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کیلئے 33ارب روپے ریلیز ہوچکے ہیں،رواں مالی سال کا پی ایس ڈی پی عوام دوست ہوگا۔ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کی تقاریرسوشل میڈیا کے لئے ہیں،گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی نے مزید کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن کے دوستوں کا رویہ غیر پارلیمانی ہے۔

ایوان میں اپوزیشن کی تقاریرسوشل میڈیا کے لئے ہیں بلوچستان عوامی پارٹی کو صوبے میں حکومت کا حق اپوزیشن نے نہیں بلوچستان کے عوام نے دیا ہے اور ہم بلوچستان کے عوام کو جوابدہ ہیں اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ غیر پارلیمانی اور غیر مناسب رویہ نہ اپنائے بلکہ ایوان کی کارروائی کو چلنے دیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی روایتوں کی امین اسمبلی ہے یہاں شیم شیم کے نعرے لگنا اور حکومتی اراکین کو بیچ میں ٹوکنا افسوسناک ہے ہم اپوزیشن کے دوستوں کو دو دو گھنٹے بیٹھ کر سنتے ہیں لیکن جب ہم انہیں جواب دیتے ہیں تو یہ بیچ میں ٹوکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی سے متعلق ہم نے پہلے بھی اپوزیشن کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت تمام حلقوں اور تمام شعبوں پر توجہ دے رہی ہے پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کیلئے 33ارب روپے ریلیز ہوچکے ہیں اگلے مالی سال کی پی ایس ڈی پی کا جہاں تک تعلق ہے تواس میں ہم ٹورازم،آرکیالوجی اور کلچر سمیت ایسے شعبوں پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔

جو ماضی میں نظر انداز رہے ہیں ہم پلاننگ کمیشن کے قوانین کی پاسداری کررہے ہیں اور تمام شعبوں و تمام علاقوں پر توجہ دے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی سابق حکومت نے بنائی تھی اگلی پی ایس ڈی پی کے حوالے سے یقین دلاتے ہیں کہ یہ عوام دوست پی ایس ڈی پی ہوگی۔