|

وقتِ اشاعت :   May 16 – 2019

امریکی فضائیہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے ایران کے ساتھ کشیدگی اور ممکنہ محاذ آرائی کے خدشے کے پیش نظر ‘ بی 52’ جنگی طیاروں کے بعد ‘ایف 15’ اور ‘ایف 35’ جہاز بھی خلیجی ملکوں کے اڈوں پر پہنچا دی ہیں۔ یہ طیارے قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے پر پہنچائے گئے ہیں۔

قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے پرB-52H طیاروں کی موجودگی کی تصاویر جاری کی گئی ہیں۔امریکی فضائیہ کا کہنا ہے کہ بمبار طیارے جنوب مغربی ایشیائی ملکوں میں بھی پہنچ گئے ہیں تاہم ان کے ٹھکانوں کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایرانی تیل کی برآمدات کو صفر تک لے جانے کااعلان کیا جس کے بعد ایران اور امریکا کے درمیان سخت کشیدگی پائی جا رہی ہے۔

ایران نے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات پرحملوں کی دھمکی دی ہے جس کے بعد امریکا نے فوری کارروائی کی تیاری کرتے ہوئے اپنا ایک جنگی بیڑا مشرق وسطیٰ میں پہنچا دیا ہے۔علاوہ ازیں مشرق وسطیٰ میں تعینات امریکا کے بی ففٹی ٹو بمبار طیارے کی ایران کے خلاف پہلی مشن پروازکی امریکی ایئرفورس نے ویڈیو جاری کردی۔

صدرٹرمپ نے دھمکی دی کہ ایران نے کچھ کیا تو یہ اس کی بڑی غلطی ہو گی اوراسے شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی چیف فیڈریکاموگیرنی کا کہنا تھا کہ امریکا ایران کے خلاف فوجی کارروائی سے گریز کرے۔علاوہ ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے امریکی مفادات کو ہدف بنانے کی کوشش کی تو اس کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

وائٹ ہاوس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران جو کچھ کرتا ہے،اس پر نظر رکھیں گے۔اگر وہ ایرانی کچھ کرتے ہیں، تو یہ ان کی بڑی سنگین غلطی ہوگی۔ امریکی صدر کے اس سخت بیان سے قبل خلیج کے پانیوں میں ایک انہونا واقعہ پیش آیا جہاں متحدہ عرب امارات نے امارت فجیرہ کے نزدیک خلیج عمان میں آبنائے ہرمز کے دوسری جانب چار تجارتی بحری جہازوں پر تخریب کاری کے حملے کی اطلاع دی ہے۔ان میں دو تیل بردار جہاز سعودی عرب کے تھے اور ایک، ایک یو اے ای اور ناروے کا تھا۔

ایران نے تخریب کاری کے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہر کی ہے اور اس کی وزارت خارجہ نے واقعے کی مزید وضاحت کے لیے کہا ہے۔صدر ٹرمپ کے اس بیان سے قبل امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی خبردار کرچکے ہیں کہ اگر ایران نے کوئی حملہ کیا تو اس کے جواب میں امریکا فوری اور فیصلہ کن ردعمل ظاہر کرے گا۔

اس سے قبل بھی امریکی وزارت خارجہ نے ایک یادداشت مختلف ممالک کے صنعتی اور تجارتی اداروں کو لکھی تھی جس میں یہ یاد دہانی کرائی گئی تھی کہ ایران پرلگائی گئی تمام پابندیاں قائم ہیں لہٰذا وہ حکومت ایران یا ایران کے تجارتی اور صنعتی اداروں سے معاہدات کرنے سے گریز کریں ورنہ وہ بھی امریکی پابندیوں کے زد میں آسکتے ہیں۔

اس یاددہانی کے بعد زیادہ بین الاقوامی تجارتی اورصنعتی ادارے امریکی پابندیوں کے خوف سے ایران اور اس کے تجارتی اداروں سے معاہدوں سے باز رہیں گے۔ امریکا کی اس تنبیہہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایران کے ساتھ جتنے ممالک کے تجارتی معاہدے ہیں وہ سب خطرے میں پڑ گئے ہیں، ایشیائی اور مغربی ممالک پہلے سے ہی ایران میں سرمایہ کاری کررہے ہیں جس میں جاپان خاص کر شامل ہے۔

واضح رہے کہ 2014ء میں ایران کے مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات میں کافی پیشرفت ہوئی تھی جب ایران پر دباؤ برقرار تھا مذاکرات کو کامیاب بنانے میں چین اور روس نے اہم کردار ادا کیا تھا، اس دوران ایران میں بعض سیاسی قوتیں اس بات کا شدت کے ساتھ مطالبہ کررہی تھیں کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک ایران کے خلاف تمام معاشی پابندیاں اٹھالیں کیونکہ مذاکرات میں ایک سال کی توسیع کے بعد ان پابندیوں کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

ان پابندیوں کی وجہ سے ایران میں افراط زر اور مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوگیاتھا ایران کی حکومت کی کوششیں جاری تھیں کہ افراط زر کو کنٹرول میں لائے بلکہ بعض حکومتی حلقے یہ دعویٰ کررہے تھے کہ افراط زر میں 50فیصد کمی لائی جاچکی ہے اور مستقبل قریب میں اس میں مزید کمی لائی جائے گی۔

لیکن اس دوران ایران کی آمدنی میں ایک بڑی کمی واقع ہوئی اور تیل کی قیمتوں میں بین الاقوامی مارکیٹ میں کمی آئی جس سے ایران کی آمدنی کم ہوئی اور اس سے ایران کے معاشی اصلاحات کو نقصان پہنچا۔ موجودہ صورتحال کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایران معاشی حوالے سے مزید مفلوج ہو جائے گااور جتنے بڑے ممالک نے ا س وقت وہاں سرمایہ کاری کررکھی ہے وہ بھی اب نقصان سے بچنے کیلئے سرمایہ کاری میں کمی لائینگے جس کا برائے راست اثر ایران کی معیشت پر پڑے گا۔

ا مریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں مزید شدت آنے کا امکان ہے جو کہ آنے والے وقت میں خلیج فارس کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ماضی میں جس طرح حالات کو ساز گار بنانے کیلئے بڑے ممالک نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے مذاکرات کو جاری رکھا کیا، کیااب اس کی گنجائش پیدا ہوگی اورکن شرائط پر ثالثی کامیاب ہوسکتی ہے یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔