|

وقتِ اشاعت :   June 4 – 2019

خیبر پختونخوا کی صوبائی دارالحکومت پشاور کی مسجد قاسم علی خان کے خطیب مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی زیر صدارت علمائے کرام کا اجلاس ہوا جس میں صوبے بھر سے موصول ہونے والی شہادتوں کا جائزہ لیا گیا۔ جس کے بعد مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے علما ء کرام کی متفقہ رائے سے عید کا اعلان کر دیا۔

شمالی وزیرستان سے چاند کی 14 شہادتیں موصول ہوئیں جبکہ لکی مروت میں مقامی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس دارالعلوم اسلامیہ میں مولانا حبیب اللہ حقانی کی زیر صدارت ہوا اور چاند کی شہادتیں موصول ہونے پر عید کا اعلان کر دیا گیا۔بنوں میں بھی مقامی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس جیلانی مسجد میں منعقد ہوا اور کمیٹی نے 48 شہادتیں موصول ہونے کے بعد منگل کو عید الفطر کا اعلان کر دیا۔مردان کی ضلعی رویت ہلال کمیٹی نے بھی 3 شہادتیں موصول ہونے کے بعد عید الفطر کے چاند کا اعلان کیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں ضلعی ناظم احتشام خان اور نائب ناظم اسد کاشمیری بھی شریک تھے۔

واضح رہے کہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کی جانب سے گزشتہ ماہ رمضان المبارک کے چاند کا اعلان بھی ایک روز قبل 6 مئی کو کر دیا گیاتھا۔دوسری جانب وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسفزئی کے مطابق پشاور کی مسجد قاسم علی خان کو 122 سے زائد شہادتیں موصول ہوئیں۔ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کو بھی مختلف علاقوں سے شہادتیں موصول ہوئیں۔شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ حکومت نے پورے صوبے میں ایک عید اور یکجہتی کے لئے یہ اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ اور گورنر آج پشاور میں نماز عید ادا کریں گے۔اطلاعات کے مطابق وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت کے درمیان شوال کے چاند نظر آنے سے متعلق اختلافات پیدا ہو گئے۔

خیبرپختونخوا حکومت نے مفتی شہاب الدین پوپلزئی کے ساتھ عید منانے کا اعلان کر دیا۔اس عمل کے بعد یقینا وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے تیار کردہ پانچ سالہ قمری کلینڈر پر بھی سوالات اْٹھ گئے ہیں کیونکہ شوال کا چاند نظر آنے یا نہ آنے کا فیصلہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے کرنا ہے جس کا اجلاس آج کراچی میں ہوگا۔

واضح رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے روزے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کے مطابق رکھے تھے۔دوسری جانب وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ چاند نظر آنے کی گواہی دینے والوں کے خلاف مقدمات قائم ہونے چاہئیں۔اپنے ٹوئٹر پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ یہ گمراہ کن بات ہے، میڈیا ان گواہی دینے والوں کے انٹرویو کرے تو پتا لگ جائے گا۔

بہرحال یہ مسئلہ اپنی جگہ اب تک برقرار ہے جسے حل کرنے کیلئے تمام فقہ سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام و مشائخ کے ساتھ ملکر گفت وشنید سے راستہ نکالنا چاہئے کہ آیا شرعی طور پر صحیح کیا ہے اور جدید دورِ ٹیکنالوجی میں اسلامی احکامات کیا ہیں۔ عید کے موقع پر امت مسلمہ پربہت سی دیگر ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں جنہیں پورا کرناضروری ہیں، عید کے پُرمسرت موقع پر گلے شکوے ختم کرنے چاہئیں، اسی طرح ہمیں غرباء اور مساکین کی طرف بھی دیکھنا چاہئے جوبڑی مشکل سے گزر اوقات کر رہے ہیں۔

نئے ملبوسات اور جوتے خریدنا تو دور کی بات ہے،ان کی مدد کرکے حقوق العباد جیسے اہم فریضہ کو پورا کرنا چائیے کیونکہ اسلام میں حقوق العباد پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ ہم آپس میں بھائی چارگی، اخوت، امن اور محبت کے ساتھ رہینگے اور دکھ درد کا مل کر مقابلہ کریں گے جس سے نہ صرف اسلامی فرائض پورے ہونگے بلکہ ایک اچھا پیغام بھی دیگر مذاہب کو جائے گا۔