|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2019

جمہوریت کا مطلب جمہور کی رائے کا احترام کرنا اور ایسی پالیسیاں بناناہے جس میں عوامی مفادات اولیت رکھتے ہوں مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں جمہوری نظام ہمیشہ سے ہی کمزور رہا ہے جس کے ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور خاص طور پر وہ جماعتیں رہی ہیں جو ہمیشہ اقتدار کے ایوانوں میں رہی ہیں۔

سیاسی کھینچا تانی کی وجہ سے پارلیمان مضبوط نہیں رہی بلکہ انتقامی سیاست نے پورے نظام کو مفلوج بناکر رکھ دیا جس کی وجہ سے پارلیمان ہمیشہ قانون سازی میں ناکام رہی ہے، بھاری اکثریت سے جیتنے والی جماعت کے وزیراعظم صرف اس بات پر ہی زور دیتے رہتے ہیں کہ انہیں پانچ سال تک منتخب کرکے اقتدار دیا گیا ہے لہٰذا مدت پوری کرنا ان کا جمہوری حق ہے اور وہ جو چاہے کرتا پھرے، اس طرح وزیراعظم سے جتنے بھی غلط فیصلے ہوئے مگر وہ کبھی معذرت خواہ نہیں رہے عہدے سے مستعفی ہونا تو دور کی بات ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ ملک میں آج بھی پارلیمان اور جمہوریت اتنی مضبوط نہیں، کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے۔

سیاسی جماعتوں کے سربراہان ملک کے حالیہ سیاسی ومعاشی بحران کی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں بلکہ ایک دوسرے پر الزامات لگائے جارہے ہیں جبکہ عوام اس بحران کا پورا ملبہ اٹھارہی ہے۔ ایک نظر مغرب کی طرف دوڑائیں تو برطانوی وزیراعظم ٹریزامے نے بریگزٹ معاہدے پر اپنی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے ہوئے ملک کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی قیادت سے الگ ہو نے کااعلان کیا، تاہم وہ بطور وزیراعظم اس وقت تک کام کرتی رہیں گی جب تک جماعت کے نئے قائد کا انتخاب نہیں کر لیا جاتا۔

انھوں نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان دو ہفتے قبل بریگزٹ معاہدے کے معاملے پر اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ سات جون کو مستعفی ہو جائیں گی۔ٹریزا مے کے بعد کنزرویٹو پارٹی کے 11 ارکان پارلیمان میں پارٹی لیڈر اور وزیراعظم بننے کی دوڑ میں ہیں۔

اس انتخاب کے عمل کے دوران ٹریزا مے ہی قائم مقام پارٹی قائد رہیں گی۔ٹریزا مے کی دور حکومت میں بریگزٹ کا موضوع حاوی رہا، پارٹی اس موضوع پر منقسم رہی اور وہ بریگزٹ کا عمل مکمل نہ کروا سکیں۔برطانیہ کو 29 مارچ کو یورپی یونین سے الگ ہونا تھا لیکن اس ڈیڈ لائن کو پہلے 12 اپریل اور اب 31 اکتوبر تک بڑھا دیا گیا ہے۔ٹریزا مے نے اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک نیا وزیر اعظم بریگزٹ کو انجام دے۔

آئینی طور پر ٹریزا مے کے پاس تمام موجودہ اختیارات رہیں گی لیکن پارلیمان کے ارکان انہیں نئے وزیر اعظم کو عہدہ سونپنے تک کوئی نئی پالیسی متعارف نہیں کرانے دیں گے۔پالیسیوں کے علاوہ ٹریزا مے بیرون ملک برطانیہ کی نمائندگی کرتی رہیں گی۔ وہ عوامی عہدوں پر بھرتیاں اور اپنے وزراء کی ٹیم میں تبدیلیاں بھی کر سکتی ہیں۔ٹریزا مے کی جانب سے پارٹی کی قیادت چھوڑنے کے بعد پیر 10 جون کو امیدوار باقاعدہ طور پر اس عہدے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائیں گے۔

پارٹی لیڈر کے عہدے کا امیدوار بننے کے لیے آٹھ ارکانِ پارلیمان کی حمایت درکار ہے۔ ارکانِ پارلیمان پھر 13، 18، 19 اور 20 جون کو خفیہ طور پر ووٹ ڈالیں گے۔دو حتمی امیدواروں میں سے انتخاب کے لیے کنزرویٹو پارٹی کے ممبران کی پہلے سے بڑی تعداد 22 جون کو ووٹ ڈالے گی اور اس کے چار ہفتے بعد نتیجے کا اعلان کیا جائے گا۔

بریگزٹ سے متعلق اہم واقعات کی ٹائم لائن جو دی گئی اس میں ریفرینڈم میں برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیاتھا۔ برطانیہ کا اخراج کے معاہدے اور یورپی یونین سے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں لائحہ عمل پر رضامندی کا اظہار کیا گیا۔ ٹریزا مے نے یورپی اتحاد کو مزید یقین دہانی کروانے کے لیے پہلے ‘میننگ فْل ووٹ’ ملتوی کر دیا۔ دارالعوام نے بریگزٹ معاہدے کو 239 ووٹوں سے مسترد کر دیا۔ پارلیمانی ارکان نے دوسری مرتبہ 149 ووٹوں سے بریگزٹ معاہدے کو مسترد کر دیا۔

یورپی اتحاد نے بریگزٹ میں 29 مارچ سے آگے تک تاخیر کرنے کا فیصلہ کیا لیکن برطانیہ کی طرف سے ایک ہفتے تک معاہدہ طے نہ پانے کی صورت میں 12 اپریل تک تاخیر کافیصلہ کیا۔پارلیمانی ارکان نے 58 ووٹوں سے اخراج کا معاہدہ مسترد کر دیا۔برطانوی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ یورپی اتحاد سے مزید مختصر توسیع حاصل کریں گی۔

یورپین کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک کے بقول برطانیہ اور یورپی یونین نے 31 اکتوبر تک بریگزٹ کی لچکدار توسیع پر اتفاق کر لیاہے۔بریگزٹ معاہدے کا جو بھی نتیجہ نکلے گا اس کا اثر ان کی پارلیمانی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہمارے ملک کے سربراہان جمہوریت اور پارلیمان کی مضبوطی کی بات کرتے ہیں تو اس طرح کا سیاسی رویہ بھی اپنائیں تو کوئی بعید نہیں کہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمان مضبوط ہوگی جو کسی بھی بحران سے بخوبی نمٹ سکے گی۔