|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2019

بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے شعبے کی بجٹ میں مسلسل اضافہ کیاجارہا ہے، بارہا اس حوالے سے ماضی اور موجودہ حکومت کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ ان شعبوں کے لیے خطیر رقم مختص کرنے کے باوجودوہ اہداف حاصل نہیں کئے جارہے جس کی توقع تھی۔اب تک اربوں روپے دونوں شعبوں پر لگائے گئے مگر بدقسمتی سے تعلیم کی صورتحال جوں کی توں ہے۔

اسکولوں میں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، خستہ حالت میں اسکولوں کی عمارتیں ہیں، کلاسز، واش رومزاور چھتوں کی حالت ابتر ہے افسوسناک امر یہ ہے کہ کوئٹہ جو بلوچستان کا دارالخلافہ ہے یہاں سرکاری اسکولز کرایہ پر لئے گئے ہیں ماضی میں یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ مالک مکان وقت پر کرایہ نہ ملنے پر بچوں اور اساتذہ کو باہر نکال دیتے جس سے بچوں اور اساتذہ پر کیسے اثرات پڑینگے جب انہیں ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑے گا کہ تعلیم جیسے مقدس ادارے کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے، ہمارے یہاں ایسے معاملات کو سطحی لیاجاتا ہے مگر کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح کے عمل سامنے نہیں آتے کیونکہ یہ انتہائی غیر مہذبانہ روش ہے۔

اول تو سرکاری اسکولزکی عمارتیں حکومت کی ملکیت ہونی چاہئیں اگر مجبوری کے تحت کسی جگہ پر کرایہ کے مکان کو اسکول بنایا گیا ہے تو اس کے کرائے کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے، اگر اتنی خطیر رقم حکومت کی جانب سے جب تعلیم کے لیے مختص کی گئی ہے تو کیونکر وقت پر کرایہ ادا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے طالبعلموں اور اساتذہ کو اسکول سے باہر نکالا گیا۔یہ واقعہ گزشتہ حکومت کے دوران مسلسل سامنے آیا، اسکول سریاب میں واقع ہے۔

ویسے بھی سریاب کو کسی طرح کی سہولیات میسر نہیں حالانکہ کوئٹہ کی سب سے قدیم گنجان آبادی پر مشتمل علاقہ ہے بدقسمتی سے اس حلقہ کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہاں سے دوسری بار مسلسل ایک ایسی جماعت کا رکن منتخب ہوکر آرہا ہے جن کا ووٹ بینک اس حلقہ میں نہیں،یہ مکمل علاقہ بلوچوں پر مشتمل ہے جہاں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور نیشنل پارٹی کا اثر ہے دونوں بلوچستان کی سب سے بڑی قوم پرست جماعتیں ہیں۔

بہرحال سریاب جیسے علاقے کے مسائل کو بھی انہی کالموں کے ذریعے اجاگر کیا گیا جس کی آواز ایوانوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے ایک بار پھر رواں مالی سال خطیر رقم رکھنے کافیصلہ کیا گیا ہے جس میں نصاب میں ماحولیات، صحت اور پانی کے متعلق طلباء کو آگاہی مل سکے اور ساتھ ہی نقل کی روک تھام کیلئے امتحانی طریقہ کار کو بہتر بنانے کی حکمت عملی تیار کی جارہی ہے جبکہ صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی، نرسنگ اسکولز اور کالجز کو صوبہ بھر میں وسعت دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

صوبائی حکومت کی یہ کاوشیں قابل ستائش ہیں مگر اس سے قبل بھی انہی دو شعبوں کے لیے زیادہ رقم مختص کی گئی، نتیجہ کچھ نہیں نکلا آج بھی صرف ایک ٹراماسینٹرہی فعال ہے، سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کا فقدان ہے۔ موجودہ حکومت پی ایس ڈی پی میں ان دونوں شعبوں کے لیے ضروررقم مختص کرے مگر نتائج حاصل کرنے کیلئے حکمت عملی بنائے کیونکہ یہ رقم عوام کی امانت ہے جس کا صحیح خرچ ہونا ضروری ہے۔

تعلیم اور صحت کی سہولیات سے پورا بلوچستان محروم ہے آج بھی کوئٹہ میں پشتون علاقوں کے غریب عوام دور دراز سے آتے ہیں جو سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جس کی وہ سکت نہیں رکھتے جبکہ بلوچ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ تر کراچی میں علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا بلوچ اور پشتون علاقوں میں تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں اور صحت کے مراکز کو فعال بناکر غریب عوام کی پریشانیوں کا مداوا کیاجائے۔