|

وقتِ اشاعت :   June 26 – 2019

مہذب معاشرے کی تشکیل میں کلیدی کردار طرز حکمرانی کا ہوتاہے بدقسمتی سے ہمارے ہاں حکمرانوں نے قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے غلط حکمرانی کا رواج رکھا، آج جس طرح چور چور کی آواز ایوانوں میں گونج رہی ہے تو اس کے ذمہ دار بھی اسی مقدس ایوان میں بیٹھے ہوئے ہیں کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیاد قانون کی بالادستی پر ہے جو سب پر لاگو ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں قانون کوہمیشہ کمزور پر ہی استعمال کیا گیا جبکہ غیر قانونی کاموں کی سرپرستی خود سیاستدان کرتے رہے۔

اگر حکمران آئین وقانون کی پاسداری کرتے تو شاید آج ملک کی صورتحال کچھ اور ہوتی۔ سیاسی سرپرستی میں ملکی نظام کو کرپٹ بنایا گیا ہمارے قومی ادارے جو کسی زمانے میں منافع بخش ہوتے تھے اب خسارے میں جارہے ہیں جس کی وجہ اقرباء پروری اور کرپشن ہے ایسی صورتحال میں کس طرح ملک ترقی کرسکتا ہے اور بحرانات کا خاتمہ کیاجاسکتا ہے۔ ملک میں بجلی کا بحران اچانک پیدا نہیں ہوابلکہ بجلی کی بڑے پیمانے پر چوری اس کی وجہ ہے لازمی بات ہے کہ عام لوگ تو بڑے پیمانے پر بجلی استعمال نہیں کرتے یہ بڑے تاجروں کا کارنامہ ہے جو بڑی صنعتیں قائم کرتے ہیں اور پھر بجلی چوری کرکے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں جس کا قومی خزانے کو نقصان اٹھاناپڑتا ہے۔

ماضی میں جس طرح سے یہ روایت رکھی گئی اس کی نظیر نہیں ملتی آج صورتحال سب کے سامنے ہے کہ ملک بھر میں بجلی کی چوری عام ہے۔ بجلی کی چوری پنجاب میں سب سے زیادہ اور دوسرے صوبوں میں کم ہوتی ہے کیونکہ پنجاب معاشی اور صنعتی لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ ہے اور اس کی توانائی کی ضروریات بھی دوسرے صوبوں سے بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے وہاں بجلی اور گیس کی چوری بھی زیادہ ہے، ماضی میں پنجاب میں مناسب سرمایہ کاری کرنے پر اپنی

سیاسی سرپرستی میں طاقتور تاجر حکمران بجلی اور گیس کی چوری کو نظر انداز کرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے اپنے مفادات اس کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ جہاں تک بلوچستان کی بات ہے اس کی بجلی کی ضروریات 1600میگا واٹ ہیں جبکہ وفاق کمال مہربانی سے اس کوصرف 600میگاواٹ بجلی دے رہاہے، اب اس میں کتنی چوری ہوتی ہوگی جبکہ اس سے زیادہ بجلی پنجاب کے صنعتی شہر فیصل آباد کو دی جاتی ہے۔

چند ایک بڑے شہروں کے علاوہ پورے بلوچستان کو گزشتہ 70سالوں میں بجلی فراہم نہیں کی گئی۔ مکران، رخشان، جنوبی اور شمالی بلوچستان میں بہت ہی وسیع علاقوں میں قومی گرڈ کا نظام مکمل طور پر فعال ہی نہیں تو بجلی کی چوری کیسے ہوگی۔ بلوچستان میں اگر تھوڑی بہت بجلی چوری ہوتی ہے تووہ کوئٹہ اور اس کے قرب و جوار کے علاقے ہیں۔کیسکو نے حال ہی میں بجلی نادہندگان کے خلاف مؤثر کارروائی شروع کی ہے ایسے تمام بجلی کے کنکشنز کاٹ دیئے گئے ہیں جو بجلی کے بل ادا نہیں کررہے جس میں قومی ادارے بھی شامل ہیں۔

اس طرح کی بلاتفریق کارروائی سے بلوں کی ریکوری یقینی ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی چوری میں بھی کافی کمی آئے گی۔ عوام بھی اس بات کے حق میں ہیں کہ جو بھی بجلی استعمال کرے وہ بل بھی ادا کرے البتہ بجلی کی قیمت کو ایک حد کے اندر رہنا چائیے تاکہ کم آمدنی والے لوگ بھی اس کا بل آسانی سے ادا کرسکیں۔

موجودہ وفاقی حکومت اس جانب خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے ملک بھر میں بڑے بجلی چوروں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کے احکامات جاری کرے تاکہ بجلی بحران پر قابو پانے کے ساتھ بجلی کی بچت ہوسکے۔ گزشتہ روز وزیراعظم آفس میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں پی ٹی آئی اور بی این پی مینگل کے رہنماؤں نے شرکت کی، اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ بلوچستان کے شہری، دیہی اور تمام فیڈرز پر تین گھنٹے اضافی بجلی فراہم کی جائیگی، یہ سلسلہ تین ماہ تک جاری رہے گا۔

ان تین ماہ کے دوران بلوچستان کے بجلی کے مسائل کے حل کیلئے جامع اقدامات اٹھائے جائینگے جبکہ بلوچستان میں نصب 29500 ٹیوب ویلز کو بجلی سے شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے جامع منصوبہ بھی بنایا جائے گا، بلوچستان میں بجلی کے مسائل کے حل کیلئے اٹھائے گئے اقدامات میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔

فیصلے کے مطابق وزیر توانائی عمر ایوب اپنی ٹیم کے ہمراہ اگلے ماہ بلوچستان کا دورہ کرینگے اوربلوچستان میں بجلی کے مسائل کے حل کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کا خود جائزہ لینگے۔ بلوچستان کے عوام کیلئے یہ ایک اچھی خبر ہے امید ہے کہ بلوچستان میں بجلی بحران پر قابو پانے کیلئے وفاقی حکومت اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔