25جولائی کو موجودہ حکومت کو بنے ایک سال کا عرصہ مکمل ہوا، اس پورے دورانیہ میں سیاسی ماحول انتہائی گرم رہا۔ شاید ہی ملکی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی ہوا ہو۔ اگر حکومتی کارکردگی کے ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ معاشی صورتحال انتہائی خراب ہے، مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے شاید ہی کوئی ایک بھی چیز ایسی ہو جس پر ٹیکس نہیں لگایا گیا ہو۔ ظاہر سی بات ہے مہنگائی کابم عوام پر ہی گرا ہے۔
پی ٹی آئی نے جب حکومت کی بھاگ ڈور نہیں سنبھالی تھی تو اس دوران پی ٹی آئی کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم عمران خان نے توقعات سے ہٹ کر غیر معمولی اعلانات کئے تھے خاص کر ملک کو معاشی بحران سے نکالنے، مہنگائی کا مکمل خاتمہ کرنے، ملک کے قرضوں کو نہ صرف اتارنے بلکہ بیرون ملک سے لوٹی گئی دولت کو واپس لاکر عوام پر خرچ کرنے،آئی ایم ایف، ورلڈبینک سمیت کسی بھی ملک سے امداد نہ مانگنے بلکہ اس سے دو قدم آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ملک کی معیشت کو اس نہج پرپہنچادیا جائے گا کہ بیرون ملک سے لوگ روزگار کے حصول کیلئے پاکستان آئینگے۔
اور یہ صرف بیانات کی حد تک نہیں بلکہ بڑے بڑے جلسوں اور دھرنوں کے دوران عوام کو مخاطب ہوکرکہا گیا تھا البتہ جتنے بھی وعدے عوام کے ساتھ پی ٹی آئی نے کئے ان پر عمل تو کجا بلکہ ان تمام بیانوں پر یوٹرن لیا گیا جس کا اظہار وزیراعظم عمران خان نے خود کیا تھا کہ یوٹرن لینے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ جو یوٹرن نہیں لیتا وہ لیڈر ہی نہیں اور انہوں نے نپولین اور ہٹلر کی مثالیں دیں کہ اگر یہ یوٹرن لیتے تو شاید شکست خوردہ نہ ہوتے۔
جب یوٹرن پر سوالات اٹھنے لگے تو وزیراعظم عمران خان نے مزید وضاحتیں دیتے ہوئے کہاکہ یوٹرن اور جھوٹ بولنے میں تمیز رکھی جائے کیونکہ ماضی کے حکمرانوں نے عوام سے ہمیشہ جھوٹ بولا ہے اور ملک میں کرپشن کرکے اس کونہ قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں کے متعلق وزیراعظم عمران خان نے پہلے ہی عندیہ دے رکھا تھا کہ جب بھی وہ اقتدار میں آئینگے تو چور اور ڈاکوؤں کو جیل بھیج دینگے جنہوں نے قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا اور یہی ایک وعدہ انہوں نے پورا کیا ہے۔
25جولائی کو پی ٹی آئی کی جانب سے یوم تشکر جبکہ اپوزیشن کی جانب یوم سیاہ منایاگیا، 25جولائی کو ملک بھر میں اپوزیشن جماعتوں نے جلسوں کا اہتمام کیا اور روایتی طور پر وہی باتیں دہرائی گئیں جو گزشتہ ایک سال سے اپوزیشن کرتی آرہی ہے کہ موجودہ حکومت دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے، عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے یوم تشکر مناتے ہوئے اسے جمہوریت اور ووٹ کی حقیقی جیت قرار دیا۔
اگر دونوں فریقوں کے جلسوں کا جائزہ لیاجائے تو عوام نے توقع سے کم ان جلسوں میں شرکت کی کیونکہ عوام کااس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور روز بروز بڑھتے ٹیکسز ہیں اور اس کے دور دور تک آثار فی الوقت دکھائی نہیں دے رہے کہ عوام کو ریلیف مل سکے گا۔ دوسری جانب تاجر برادری بھی سراپا احتجاج ہے اور ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتی۔ احتجاج، جلسے، مظاہروں اور ہڑتالوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے اور ایسی کوئی صورتحال بھی نظر نہیں آرہی کہ حکومت اور اپوزیشن ملکر ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی بنائیں گے۔
بلکہ اب تو وزیراعظم عمران خان نے جیل میں قید سیاسی قیدیوں کو ملنے والی سہولیات واپس لے لیں ہیں جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مزید ردعمل سامنے آئیگا۔جس طرح سے سیاسی حالات بن رہے ہیں ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے دن زیادہ گھمبیر ہوں گے اور حالات کوئی رخ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔