|

وقتِ اشاعت :   August 9 – 2019

سانحہ 8 اگست 2016ء کوتین برس گزر گئے مگر آج بھی یہ المناک واقعہ ذہنوں میں تازہ ہے کیونکہ اس کربناک سانحہ میں بلوچستان کے اہم شعبہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا یقینا اس خلاء کوکبھی پُر نہیں کیاجاسکے گا اور نہ ہی اس سانحہ کو بھلایاجاسکتا ہے۔

دہشت گردوں نے اس واقعہ کی پیشگی منصوبہ بندی کی تھی۔ پہلے بلوچستان بار کونسل کے صدر ایڈووکیٹ بلال کانسی جب گھر سے نکلے تو منو جان روڈ پرموجود دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے انہیں شہید کردیا۔

اور دہشت گرد اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ بلال کانسی کی میت کو فوری طور پر سول اسپتال کوئٹہ منتقل کیاجائے گا جہاں پہلے سے ہی دہشت گرد تاک میں تھے کہ جیسے ہی وکلاء کی بڑی تعداد وہاں پہنچے گی تو انہیں نشانہ بنایا جائے گا اور اسی طرح ہی ہوا کہ اسپتال کے احاطے میں موجود دہشت گرد نے خود کو دھماکہ سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 60 افراد شہید ہوئے جس میں بیشتر تعداد وکلاء کی تھی۔

جبکہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے دو کیمرہ مین شہزاد خان اور محمود خان بھی شہید ہوئے جو واقعہ کی اطلاع ملتے ہی میڈیا کوریج کیلئے وہاں پہنچ گئے تاکہ واقع کی بروقت کوریج کی جاسکے مگر صحافتی فرائض ادا کرتے ہوئے وہ خود خبر بن گئے۔بلوچستان کے لوگ آج بھی سانحہ 8 اگست کو بھلانہیں پائے ہیں کیونکہ اس میں ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے افراد کو نشانہ بنایا گیا جس سے بلوچستان کو بڑا نقصان پہنچا،شہید ہونے والوں میں ہمارے اہم وکلاء شامل تھے۔

جن کا عدلیہ کی آزادی سمیت انصاف کے حوالے سے بڑا اہم کردار رہا ہے۔سانحہ آٹھ اگست نے پورے بلوچستا ن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، بلوچستان گزشتہ کئی دہائیوں سے شدت پسندی کا سامنا کررہا ہے،یہاں بہت بڑے سانحات رونما ہوئے جن میں سانحہ آٹھ اگست بھی شامل ہے۔ان سانحات کے پیچھے وہی عناصرکارفرما ہیں جنہوں نے ہماری روایات اور کلچر کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔

جس کی بار ہا نشاندہی کی گئی ہے کہ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں غیر ملکی تارکین وطن اور افغان مہاجرین موجود ہیں جن میں بعض ایسے شرپسند عناصر ہیں جو ان جیسے دہشت گردی کے واقعات میں نہ صرف برائے راست ملوث رہے ہیں بلکہ دہشت گردوں کی سہولت کاری بھی کرتے آرہے ہیں جن کی وجہ سے غریب افغان باشندوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

لہذا یہ ضروری ہے کہ مہاجرین کے عالمی قوانین پر عملدرآمد کیاجائے اگر فی الوقت انہیں واپس بھیجا نہیں جاسکتا مگر ان کی نقل وحرکت کو محدود کرتو کیا جاسکتا ہے تاکہ بلوچستان مزید لہولہان ہونے سے بچ جائے۔یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دہشت گرد سرحد پار کرکے بلوچستان میں داخل ہوتے ہیں اور منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی کے واقعات کرتے ہیں۔

دہشت گردوں کی آمد کو روکنے کے لیے سرحدوں پر باڑ لگادیا گیا ہے جو ایک اچھا عمل ہے کیونکہ دہشت گردی کی تدارک کیلئے یہ اقدام انتہائی ضروری تھا۔ اب اس کے ساتھ غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کیلئے بھی اقدامات اٹھائیں جائیں کیونکہ ان کی موجودگی میں مکمل طور پر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں اور جو مہاجرین رجسٹرڈ ہیں انہیں مہاجر کیمپوں تک محدودرکھا جائے اور ان پر کڑی نظر رکھی جائے۔

بلو چستان ایک پُرامن صوبہ رہا ہے جس کی مثال ہر وقت دی جاتی تھی یہاں کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں پر تمام اقوام، قبائل ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہی قربت رکھتے ہیں جو بلوچستان کی روایات کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ بہرحال سانحہ آٹھ اگست کے شہداء ہمارے ہیرو ہیں جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہینگے۔