|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2019

بھارت نے جب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے یہ مسئلہ ملکی وبین الاقوامی سطح پر زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے، وادی کشمیر میں مکمل کرفیو نافذ کردی گئی ہے اور وہاں کے تمام لیڈران کو قید کردیا گیا ہے،ادھر پاکستان بھر میں بھارتی جارحیت کے خلاف شدید احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، ملکی سطح پر قومی سلامتی کا اجلاس بھی منعقد ہوا اور اس میں اہم فیصلے بھی کئے گئے۔

کشمیر مسئلہ پر جوائنٹ سیشن طلب کرنے کے بعد بہت سی امیدیں کی جارہیں تھیں کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر ایک پیغام دینگے ایسا کچھ نہیں کیا گیا صرف الزام تراشی اور شورشرابہ کیا جارہا ہے جس سے اچھا تاثر نہیں جارہا کیونکہ پوری دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان کے اس اہم اجلاس پر لگی ہوئی ہیں جبکہ کشمیری اور ملکی عوام بڑی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔

مگر جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے اس پر افسوس ہی کیاجاسکتا ہے، حکومت اور اپوزیشن کو اس وقت ایک پیج پر ہونا ضروری تھا لیکن اس کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں اور جوائنٹ سیشن سے وابستہ امیدیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں ایسے حساس مسئلہ پر سیاسی قیادت کے درمیان موجود خلیج کا ختم ہونا انتہائی ضروری تھا۔

بہرحال اب اس محاذ کو سفارتی سطح پر ہی زیادہ اٹھانا بہتر ہوگا۔ گزشتہ روزاقوام متحدہ میں پاکستان کی مندوب ملیحہ لودھی نے پاکستان کی جانب سے کسی عسکری آپشن کے استعمال کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے پاس تمام سفارتی اور سیاسی آپشن موجود ہیں اور پاکستان کو بھارت کی جانب سے بڑھائے گئے اس بحران کو مزید بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارتی اقدامات کے خلاف سلامتی کونسل جائے گا اوراس کو ان کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کروائے گا، پاکستان سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کا حل چاہتا ہے۔ملیحہ لودھی کا کہنا ہے۔

کہ یہ پورا بحران اس ریاست کے لوگوں کے بارے میں ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ بین الاقوامی برادری قانون، انصاف اور اصولوں کے لیے کھڑی ہو تاکہ اس ریاست کے لوگوں کی مشکلات کم کی جا سکیں۔ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو 70 سال سے آزادی سے محروم رکھا گیا ہے اور اب انہیں ان کی شناخت سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔

بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔کشمیر ایک بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور یہ مسئلہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب بھارت نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ذریعے غیر قانونی طور پر ریاست جموں و کشمیر پر تسلط جمایا۔دوسری جانب کشمیرمیں اس وقت صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔

سکیورٹی کے سخت اقدامات اب بھی جاری ہیں۔نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکنے کے لیے سری نگر کی جامعہ مسجد بند کردی گئی۔کشمیر میں ہزاروں فوجی گلیوں میں گشت کر رہے ہیں۔کشمیر میں مواصلات کے تمام ذرائع گزشتہ اتوار سے منقطع ہیں۔

بہرحال اس وقت پاکستان کیلئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے جسے سفارتی سطح پر ایک محاذ کے طور پر لڑنا ہوگا،تمام عالمی برادری اور دوست ممالک کو اپنے ساتھ ملانا پڑے گاتاکہ بھارت پر دباؤ بڑھایاجاسکے اور ان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کو کالعدم قرار دیا جائے۔امید ہے کہ سفارتی محاذ پر کشمیر کے حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی اور بھرپور طریقہ سے کشمیر کا مقدمہ لڑا جائے گا۔