وفاقی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد سے متعلق رپورٹ جاری کر دی ہے جس کے مطابق ملک میں فرقہ وارنہ دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔رپورٹ کے مطابق شہر قائد کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی جبکہ امن و امان کی صورتحال میں واضح بہتری آئی ہے۔دوسری جانب رپورٹ میں پنجاب میں امن و امان میں بہتری لیکن انتہاپسندی میں اضافہ کے رجحان کی نشاندہی کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت 71 تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جبکہ چار کو نگرانی کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ساڑھے تیس ہزار مدارس میں سے 21 ہزار9 سو کی رجسٹریشن کرلی گئی ہے، سندھ کی 80 فیصد،کے پی کے 75، بلوچستان کے 60 اور فاٹا کے 85 فیصد مدارس رجسٹرڈ کر لئے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں نو کروڑ 81 لاکھ غیر قانونی سمز بلاک کر دی گئیں ہیں جبکہ اے پی ایس واقعہ کے بعد 486 افراد کو سزائیں بھی دی گئی ہیں جن میں سے 56 دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔
اس دوران دہشت گردوں کے خلاف 2 لاکھ 49 ہزار 909 آپریشنز کئے گئے جن میں 3 ہزار8 سو افراد گرفتار جبکہ 2 ہزار 268 مارے گئے۔سیکیورٹی اداروں نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک میں نفرت پھیلانے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ہے اور اس میں ملوث ساڑھے تین ہزار افراد کو بھی گرفتارکرلیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی پر 34 ہزار سے زائد گرفتاریاں ہوئیں ہیں۔سوشل میڈیا پر سولہ سو لنکس بلاک اور ساڑھے چودہ ہزار شکایات بھیجی گئیں۔رواں سال کراچی میں دہشت گردی کے 55 واقعات ہوئے جن میں 290 ٹارگٹ کلنگز ہوئیں اور اغوا کے 503 کیسزرجسٹرڈ ہوئے۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں دو ہزار فراریوں نے سرینڈر کیا۔نیشنل ایکشن پلان کی اب تک کی جو رپورٹ ہے وہ تسلی بخش ہے مگر اس میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے جب نیشنل ایکشن پلان کا آغاز کیا گیا تو اس دوران ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف بھرپور ایکشن لیا گیا،کراچی جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے،وہاں صورتحال انتہائی گھمبیر تھی روزانہ ٹارگٹ کلنگ، جلاؤگھیراؤ، اشتعال انگیزی، ہڑتالوں نے پوری معیشت کا بٹہ بٹھادیا تھا شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا کہ شہر قائد میں کوئی واقعہ رونما نہ ہوتا، مگر نیشنل ایکشن پلان کے بعد جس تیزی سے دہشت گردوں سے شہر قائد کو پاک کردیا گیا اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی اور آج کراچی شہر پھر ایک بار رونقوں کا مرکزی شہر بن گیا ہے۔
پنجاب میں ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں ملی کہ وہاں دہشت گردی کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہوں مگر اس کی نسبت کے پی کے اور بلوچستان دہشت گردی کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ ان دونوں صوبوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جس کی وجہ سے سرحد پار سے دہشت آکر دہشت گردی کرتے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جب تک دونوں صوبوں سے غیر قانونی تارکین وطن کی مکمل واپسی یقینی نہیں بنائی جاتی تب تک دہشت گردی کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا اس لئے بلوچستان سے خاص کر ہر بار یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ جلد ازجلد افغان مہاجرین کی واپسی کو یقینی بنایا جائے مگر یہ عمل تعطل کا شکار ہے اس کی وجہ سے بلوچستان متاثر ہے۔
بہرحال کالعدم تنظیموں پر پابندی کے بعد مجموعی طور پر ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوگئی ہے مگر مدارس اور این جی اوز کی رجسٹریشن میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے تاکہ تمام غیر سرکاری ادارے ملکی قانون اور آئین کے تحت اپنے فرائض سرانجام دیں کیونکہ ہمارے یہاں مدارس اور این جی اوز بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر غیر رجسٹرڈ ہیں لہٰذا قومی سلامتی کے پیش نظر ان پر قانون لاگوکرکے رجسٹرڈ کیاجائے تاکہ ان کی فنڈنگ اور کام پر نظر رکھی جاسکے۔