|

وقتِ اشاعت :   August 25 – 2019

مقبوضہ کشمیر میں حالات انتہائی خوفناک صورتحال اختیار کرتے جار ہے ہیں، جمعہ کے روز نماز جمعہ کے بعد ہونے والے مظاہرے میں پُرامن مظاہرین کے خلاف بھارتی فورسز نے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے پیلٹ گن اور آنسو گیس کے شیل فائر کئے جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین زخمی ہوئے اس مظاہرے میں خواتین اور مردوں کی بڑی تعدادشریک تھی۔ نماز جمعہ کے بعد اجتماع میں شریک بڑی تعداد میں کشمیریوں نے کشمیر کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے۔

پُرامن مظاہرے کو بھارتی فورسز نے تشددمیں بدل دیا۔مظاہرین کے راستے میں موجود سکیورٹی فورسزنے ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا۔اس وقت بھی صورہ میں بھارتی فورسز نے مکمل کرفیو کا ماحول بنائے رکھا ہے۔دوسری طرف سرینگر میں جمعہ کی نماز کیلئے مرکزی جامع مسجد درگاہ حضرت بل میں کشمیریوں کوکسی بڑے اجتماع کی اجازت نہیں دی گئی، بھارتی انتہاء پسند ریاست کی پابندیاں گزشتہ تین ہفتوں سے جاری ہیں جس سے ماحول مکمل کشیدہ ہے۔مقبوضہ کشمیر میں مسلسل تیسرے جمعہ کوبھی وادی کی مرکزی جامع مسجد اور خانقاہوں میں نماز جمعہ کے اجتماعات کی اجازت نہیں دی گئی۔

واضح رہے کہ بھارتی فورسز کی جانب سے اب تک مظاہرین پر شیلنگ اور چھرے لگنے سے متعدد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ایسے تمام علاقے جہاں سے جلوس نکلنے کے خدشات ہیں تمام راستوں پر ناکہ بندی کی گئی ہے۔کشمیر پر ہونے والے مظالم پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی جانب سے کہاگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ذرائع مواصلات کی بندش ختم کرنے اور پرامن مظاہروں کے خلاف کارروائیوں کو روکاجائے۔انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ ہائی کمشنر کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں ادارے کے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے۔

کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد پابندیوں کے نفاذ کے باعث خطے میں کشیدگی بڑھنے کا امکان ہے۔کشمیر سے آنے والی خبروں کے مطابق رواں ماہ کی چار تاریخ سے جموں اور کشمیر میں مواصلات کا نظام تقریباً مکمل طور بند ہے اور انٹرنیٹ، موبائل، لینڈ لائن اور کیبل نیٹ ورک کی سروس بھی منقطع کر دی گئی ہے یہ بندش مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بغیر کسی جرم کے اجتماعی سزا دینے کے مترادف ہے۔

بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو بھی نافذ کر رکھی ہے اور بھاری تعداد میں فوجی دستے نقل و حرکت اور پُرامن مظاہروں کو روکنے کے لیے طلب کررکھی ہے۔ یہ پابندیاں غیرمناسب ہیں،وادی سے ملنے والی معلومات کے مطابق سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مظاہرے کرنے والوں کی گرفتاریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق اب تک چار ہزار سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جبکہ ماہرین نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی اہلکار رات میں گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں اور نوجوانوں کو گرفتار کر رہے ہیں۔

جوکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ دوسری جانب نسل کشی کے واقعات پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم جینوسائیڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں ایسے کئی اشارے مل رہے ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں حالات نسل کشی کی طرف جا رہے ہیں۔ جینو سائیڈ تنظیم نے نسل کشی پر تحقیقی کام کرنے والی ماہر پروفیسر باربرا ہارف کی نسل کشی کے حالات کی علامتوں کی فہرست کا کشمیر پر اطلاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر اس وقت نسل کشی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ان علامتوں میں نسل کشی سے پہلے کی غارت گری، تصادم کے واقعات کا تکرار کے ساتھ ہونا، انتہا پسند ہندوتوا کے نظریے کا فروغ پانا، فوجی کنٹرول کا ہونا اور ذرائع مواصلات اور ابلاغ کو بند کردینا وغیرہ شامل ہیں۔عالمی اداروں کی جانب سے جس طرح سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔پاکستان نے پہلے ہی ان خدشات سے دنیا کے مختلف ممالک اور سلامتی کونسل کو آگاہ کررکھا ہے مگر بھارتی مظالم دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں،اب نئی اطلاعات یہ بھی آرہی ہیں کہ بھارتی انتہاء پسند ریاست کسی بہانے سے مقبوضہ کشمیر میں آپریشن کرکے کشمیریوں کی نسل کشی کرنا چاہتی ہے۔

یہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے لہٰذا عالمی برادری، عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بیانات سے آگے بڑھ کر اس ڈرامائی آپریشن اور بھارت کے مظالم کو روکنے کیلئے عملی کردار ادا کریں کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں خون کی ہولی کھیلنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور اس منصوبہ بندی کے پیش نظر میڈیابلیک آؤٹ سمیت مواصلات کے تمام ذرائع بندکردیئے گئے ہیں تاکہ بھارت اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرسکے لہٰذا امریکہ اور عالمی برادری کو ایک قدم آگے بڑھ کراپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔