بلوچستان حکومت نے انوکھا کارنامہ کرتے ہوئے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے 114 اساتذہ کو فارغ کردیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جن اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے ان میں فوت شدہ اور ریٹائرڈ ملازمین بھی شامل ہیں،شعبہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کی جانب سے بھوت اساتذہ کے خلاف کارروائی کاسلسلہ جاری ہے یہ خوش آئند بات ہے کہ جو بھی اساتذہ تعلیمی اداروں میں اپنے فرائض سرانجام نہیں دیتے اورسرکاری خزانہ پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔
انہیں فارغ کیا جائے کیونکہ بیشتر بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر عمل میں لائی جاتی ہیں جو کہ ہمارے نظام پر بہت سارے سوالات اٹھاتی ہے۔لہٰذا ضلع کیچ تربت کے 114 اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے ان کے حوالے سے شفاف تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے اور اس کی مکمل چھابین کی جائے کیونکہ اس طرح فوری طور پر انہیں ملازمت سے فارغ کرنا سراسر زیادتی ہوگی۔ بہرحال اساتذہ کے ہاتھوں ہمارے بچوں کا مستقبل ہوتا ہے۔
اگر آج بلوچستان میں ناخواندگی کی شرح میں اضافہ سب سے زیادہ ہے تو اس میں ایک بڑی وجہ بھوت اساتذہ ہیں لہٰذا حکومت اپنے اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ایسے اساتذہ کے خلاف کارروائی کا سلسلہ جاری رکھے۔ گزشتہ اور موجودہ حکومت کے دور میں یہ زیادہ دیکھنے کو ملا ہے اور اسے باقاعدہ طور پر پہلی بار تسلیم کیا گیا ہے کہ بعض بھوت اساتذہ کی تنخواہیں روک دی گئیں ہیں اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔حکومتی ذمہ داران بارہا اساتذہ سے اپیل کررہے تھے کہ وہ بھوت اساتذہ نہ بنیں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور ڈیوٹی پر حاضر ہوں۔
سیکرٹری ثانوی تعلیم نے ایکشن لے لیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکرٹری ثانوی تعلیم پہلے کی طرح مافیا کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے یا دوسرے بھوت اساتذہ کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔ظاہر ہے کہ اساتذہ خصوصاً بھوت اساتذہ کی ایک منظم اور طاقتور تنظیم موجود ہے وہ حرکت میں آئے گی پہلے تو وہ سڑکوں کو بند کردیں گے تاکہ عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ اذیتیں دی جائیں۔ان کو قانون کے تحت اپنی جماعت منظم کرنے کا اختیار ہے اس کے ذریعے وہ ہڑتال کریں گے۔ بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر سرکاری ملازمین ٹریڈ یونین کی سرگرمیوں میں سرکاری طورپر ملوث ہیں۔
وہ ہڑتال کرتے ہیں اور پوری زندگی کو مفلوج اس لئے بناتے ہیں کہ بغیر ڈیوٹی کے ان کو تنخواہیں ملتی رہیں اور دیگر سہولیات بھی انہیں فراہم کی جائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکرٹری ثانوی تعلیم دیگر اسکولوں میں بھی اسی قسم کی کارروائیاں جاری رکھیں گے یا طاقتور ٹیچر مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ اصولی طورپرسیکرٹری ثانوی تعلیم ان انجمنوں پر پہلے پابندی لگائیں جو غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں جو ڈسپلن رولز کے خلاف ہیں۔ دوسرے ان اساتذہ کی ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے۔ ان کے تمام دفاتر سیل کردئیے جائیں جو غیر حاضر یا بھوت اساتذہ ہیں انکو ملازمت سے فوری برطرف کیا جائے۔
ایسی صورت میں عوام اور سیاسی رہنما افسر شاہی کا ساتھ دے سکتے ہیں بلکہ صوبائی حکومت اور تمام سیاسی پارٹیاں ایسے اقدامات کی حمایت کریں گے جس کا واحد مقصد تعلیم کا فروغ ہو، تعلیم کا نظام بہتر ہو۔ اساتذہ سالانہ 18ارب روپے صرف تنخواہ کی مد میں وصول کرتے ہیں اس کو جائز بنائیں اور بھوت اساتذہ کو اپنے صفوں سے نکال باہر کریں۔ جس طرح ضلع کیچ تربت کا ایک بڑا مسئلہ سامنے آیا ہے کہ بغیر کسی تحقیقات اور کمیشن کے 114 میل اور فیمیل اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا ہے جوکہ سراسر زیادتی ہے لہذا قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔
اور انہیں اپنا مؤقف پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جائے تاکہ کسی طرح کی ناانصافی نہ ہوحالانکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تعلیمی اداروں کے اہم آفیسران کے رشتہ دار جو محکمہ تعلیم میں بھرتی ہوئے ہیں وہ ڈیوٹی نہیں دیتے جن کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ لہٰذا حالیہ اقدامات سے جو بھوت اساتذہ کے خلاف مہم شروع ہوئی ہے اس پر منفی اثرات پڑینگے تربت کے مقامی نمائندوں کو بھی آگے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔