|

وقتِ اشاعت :   September 12 – 2019

سوشل میڈیا پرکچھ دنوں سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کی خبریں چل رہی تھیں جنہیں محض افواہ ہی سمجھا جارہا تھا مگر اب روایتی میڈیا پر بھی یہ بحث چھڑ چکی ہے جبکہ حکمران جماعت پی ٹی آئی اس کی تردید کرتی آرہی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کے متعلق خبریں محض افواہ ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں۔ بہرحال ملکی سیاسی تاریخ ہمارے سامنے ہے کہ سیاسی تبدیلی میں منٹ بھی نہیں لگتا۔

وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب کی ملاقات کو بھی اسی تناظر میں دیکھاجارہا ہے مگر اس پر حکمران جماعت کی جانب سے یہی بات کی جارہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں گورننس، بلدیاتی انتخابات اور پولیس اصلاحات پر بات چیت ہوگی۔معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے وزیراعلیٰ پنجاب کی تبدیلی کون لیگ کا شوشہ قرار دے کر خبروں کو مسترد کردیا تھا۔

گزشتہ ہفتے عثمان بزدار نے کہا تھا کہ وزیراعظم چاہتے تھے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ کسی پسماندہ علاقے سے ہو اور جس کا کوئی اسکینڈل نہ ہو، اس لئے انہوں نے میرا انتخاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ بننے سے قبل میں دو مرتبہ تحصیل ناظم رہا اس کے علاوہ میں نے متعدد جامعات سے کورسز بھی کئے جو آج صوبہ چلانے کے لئے میرے کام آ رہے ہیں،جب تک میرا دانہ پانی لاہور میں لکھا ہے۔

اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا اور جب مجھے جانا ہوا تو کوئی مجھے ایک منٹ کیلئے بھی روک نہیں سکتا۔وزیر اعلیٰ پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گل نے کہا کہ جس کو وزیراعلیٰ پنجاب پسند نہیں وہ تحریک انصاف چھوڑ دے، عثمان بزدار کو وزیراعظم نے عہدہ دیا ہے وہ اس پر قائم رہینگے۔ شہباز گل نے کہا کہ اداروں کا کلچر تبدیل کرنے میں وقت لگتا ہے، پولیس عوام کی خدمت کیلئے ہے، تشدداور ٹارچر سیل بنانے کیلئے نہیں۔شبہازگِل نے محکمہ پولیس میں مختلف اصلاحات کے اعلان کے ساتھ ساتھ سابق حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنا ڈالا۔

اب اگر معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کے گزشتہ دنوں کے بیان پر غور کیاجائے جس میں انہوں یہ بات کہی تھی کہ وزیراعظم سے لیکر تمام کابینہ بشمول عہدیداران کی کارکردگی بہتر نہیں ہوگی تو انہیں جانا پڑے گا اسی نقطہ پر ہی وزیراعلیٰ پنجاب زیادہ نشانہ پر ہیں کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کی کارکردگی بہتر نہیں بلکہ اقرباء پروری سے زیادہ کام لیاجارہا ہے جبکہ پنجاب میں جو محکمے ماضی میں بہتر طریقے سے کام کررہے تھے اب وہ نتائج سامنے نہیں آرہے یہاں تک کہ بعض محکموں میں تبادلے وتقرریاں بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے قریبی رشتہ دار کرتے ہیں۔

یہ ایک پروپیگنڈہ بھی ہوسکتا ہے مگر بعض حلقے اس کی تصدیق بھی کررہے ہیں۔ دوسری جانب شہباز گلِ نے جس طرح ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جس کو وزیراعلیٰ پنجاب پسند نہیں وہ تحریک انصاف چھوڑدے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پارٹی کے اندر وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق اختلافات موجود ہیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو شہباز گلِ پارٹی کے متعلق کچھ نہیں کہتے بلکہ اسے حریف جماعتوں کے پروپیگنڈوں سے منسوب کرتے مگر اس بیان کے بعد بعض حد تک افواہیں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب کی ملاقات آنے والے بلدیاتی انتخابات کے متعلق بھی ہوسکتی ہے۔


اور وزیراعظم عمران خان کی ہی خواہش پر عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب بنے ہیں اگر واقعی یہ معاملہ پارٹی کے اندر اختلافات کا باعث بنا تو یقینا اس کے اثرات وفاق پر بھی پڑینگے کیونکہ پنجاب اور مرکز ی حکومت کا ملکی سیاست میں کلیدی کردار ہوتا ہے اور عثمان بزدار کو ہٹانے سے پی ٹی آئی کی حکومت متاثر ہوگی لہٰذا اس کے امکانات انتہائی کم دکھائی دے رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو ہٹایا جائے گا۔