نیب کی جانب سے گرفتاریوں کا عمل مسلسل جاری ہے اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے اہم رہنماؤں کو کرپشن کے مختلف الزامات پر گرفتار کیا جاچکا ہے، گزشتہ روز خورشید شاہ کی بھی گرفتاری عمل میں آئی، گرفتاریوں پر اپوزیشن نے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں شدید احتجاج کیا، اپوزیشن جماعتیں ان گرفتاریوں کو سیاسی انتقام سے منسوب کرتی آرہی ہیں ان کا الزام ہے۔
کہ حکومت کے کہنے پر نیب کارروائی کررہی ہے تاکہ اپوزیشن جماعتوں کو دیوار سے لگایا جاسکے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کسی صورت این آر او نہیں دیاجائے گا اپوزیشن جماعتوں کا شورشرابہ صرف اپنے لیڈران کیلئے این آراو مانگنا ہے اگر انہیں این آر او دیا گیا تو میں بھی اپنے وژن سے ہٹ جاؤنگاجبکہ اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ کوئی این آر او نہیں مانگ رہا بلکہ ایسی حالات کا پہلے بھی مقابلہ کرچکے ہیں۔
آگے بھی کرینگے۔ بہرحال ملکی سیاسی حالات میں زیادہ گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بڑھتی کشیدگی تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمان کا اسلام آباد میں لاک ڈاؤن زیادہ زیر بحث ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد مارچ میں 15لاکھ افراد شرکت کرینگے اور اس کی تیاریاں شروع کردی گئیں ہیں مگر اس مارچ میں بھی اپوزیشن جماعتیں منقسم دکھائی دیتی ہیں۔
مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شرکت کی حامی بھرلی ہے اور یہ فیصلہ نواز شریف کی جانب سے کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے متعلق بھی بعض قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ اس وقت ن لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہے ایک طرف شہباز شریف تو دوسری جانب نواز شریف کے حامی ہیں۔شہباز شریف کے ساتھ جڑے لیگی رہنماؤں کے بارے میں یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں۔
کہ وہ حکومت اور نواز شریف کے درمیان ڈیل کرانا چاہتے ہیں جس میں اہم شرط یہ ہے کہ نواز شریف رقم کی ادائیگی کے بعد بیرون ملک منتقل ہوکر سیاست سے مکمل کنارہ کش ہوجائیں جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی کچھ عرصہ کیلئے سیاست سے دور رہیں مگر نواز شریف اس ڈیل کو ماننے کیلئے تیار نہیں اور اس حوالے سے جیل میں باقاعدہ لیگی رہنماؤں کی نواز شریف سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔
بعض لیگی ارکان کی کوشش ہے کہ ڈیل پر میاں محمد نواز شریف رضامند ہوجائیں تاکہ ن لیگ کے خلاف جو گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے اس میں کمی آسکے۔ بہرحال مسلم لیگ ن اس حوالے سے کھل کر وضاحت تو نہیں کررہی بلکہ اس کی تردید کررہی ہے۔ حکومتی ارکان بھی اس کی تصدیق نہیں کررہے البتہ یہ ضرور سننے کو مل رہا ہے کہ کچھ لوگ ڈیل کرانا چاہتے ہیں مگر حکومت کا واضح پیغام ہے۔
کہ پلی بارگین کے ذریعے رقم ادا کی جائے جو کہ قانون کے عین مطابق ہے۔ اس تمام صورتحال میں پاکستان پیپلزپارٹی درمیانہ انداز کی سیاست کرتی دکھائی دے رہی ہے، خورشید شاہ کی گرفتاری کے بعد بعض حلقے یہ توقع کررہے تھے کہ اب پیپلزپارٹی بھی اسلام آباد کے لاک ڈاؤن میں شریک ہوکر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی مگر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے صرف اخلاقی حمایت کے علاوہ عملی طور پر دھرنے میں شرکت کا اعلان نہیں کیا۔
بلاول کا کہنا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹواور شہید بینظیر بھٹو کی سیاست کو آگے لیکر جارہے ہیں جس میں جمہوریت کے تسلسل کو آگے بڑھانا ہے۔بہرحال جو ابھار اس وقت ملک میں سیاسی حوالے سے دیکھاجارہا ہے اس میں آئندہ چند ہفتوں میں کمی کی بجائے شدت دیکھنے کو ملے گا اسلام آباد لاک ڈاؤن کے باوجود بھی اپوزیشن حکومت کو نہیں گراسکتی،ماضی میں بھی اسلام آباد میں بڑے دھرنے دیئے گئے مگر حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی۔
البتہ اس وقت حکومتی پالیسیاں زیادہ توجہ کا مرکز بنیں گیں کہ وہ کس طرح کی حکمت عملی اپناتے ہوئے ماحول کو اپنے حق میں کرے گی کیونکہ صرف سیاسی نہیں بلکہ معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ گڈگورننس بھی چیلنج بن چکا ہے اگر اس میں بہتری لائی گئی تو یقینا کسی حد تک ماحول کو حکومت اپنے حق میں کر سکتی ہے۔